افغانستان میں 40سال سے جہاد میں شریک تجربہ کار سیاست دان اور حزب اسلامی کے اہم رہنما گل بدین حکمت یار نے پاکستان پہنچتے ہی یہ اعلان کیا کہ ’’بھارت پاکستان کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے افغان امن عمل سے مطمئن نہیں ہے اور اسی لیے بھارت نے افغان امن عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے مقامی ملیشیائوں کی حمایت شروع کردی۔ افغان رہنما کا مزید کہنا تھا کہ: ’’چین اور پاکستان، افغانستان کے حوالے سے مشترکہ اور مربوط پوزیشن رکھتے ہیں، دونوں ممالک نہ صرف امن عمل کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اسے خطے کے لیے فائدے مند بھی سمجھتے ہیں، لیکن افغانستان میں بھارت کی موجودگی اور اس کی پالیسیاں امن عمل کو نقصان پہنچا رہی ہیں‘‘۔ یہی وہ بات ہے جس کے لیے گل بدین حکمت یار کو پاکستان کا دورہ کرنا پڑا۔ تین روزہ دورے کے دوران انہوں نے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنمائوں سے ملاقات، پالیسی تھنک ٹینک سے خطاب اور میڈیا سے بات بھی کی۔ پاکستان، افغان عوام کے امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے کی گئی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ پاکستان، افغان امن عمل کے لیے افغان قیادت کے ذریعے وسیع البنیاد اور جامع سیاسی حل کی مستقل حمایت کرتا ہے۔
واضح رہے کہ 1990 کی دہائی میں گل بدین حکمت یار 2 مرتبہ افغان وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں، گل بدین حکمت یار کے اس دورے کا اب تک جو مقصد سامنے آیا ہے اس میں انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ بھارت افغانستان میں امن کا کھلا دشمن اور اسی لیے وہ امریکا کے افغانستان سے نکلنے کا مخالف ہے۔ ہم نے اپنے کالم میں اس بات کا پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ: ’’بھارت افغانستان میں چلے ہوئے کارتوس رشید دوستم، اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ کی بھرپور مدد کرنے میں بہت زیادہ متحرک نظر آرہا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا یہ اعلان واپس لے لیں جس میں انہوں نے کہا ہے ’’25دسمبر سے پہلے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل کر لیا جائے گا‘‘۔ امریکی وزیرِ دفاع ایسپر اور ان کی عسکر ی قیادت بھی افغانستان سے نکلنے کے خلاف ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر حالت میں نکلنا چاہتے ہیں ہم نے 19اکتوبر کے کالم میں ذکر کیا تھا کہ: ’’چین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 15اکتوبر کو پیپلز لبریشن آرمی کی ’’میرین کور‘‘ کا معائنہ کرنے کے موقع پر صدر شی جن پنگ نے فوج سے کہا کہ پورے خلوص اور وفاداری کے ساتھ جنگ کے لیے تیار رہے‘‘۔ اس خطاب میں انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ: ’’بھارت اگر خطے میں جنگ اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے باز نہ آیا تو بھارت میں جاری آزادی تحریکوں کی چین ہر طرح سے حمایت کرے گا اور ان تحریکوں کو کامیاب بنائے گا‘‘۔ بھارت میں اس وقت 20سے زائد آزادی کی تحریکیں برپا ہیں ان میں سے 9تحریکیں چین کی سرحد سے متصل ہیں۔ بھارت میں سب سے زیادہ متحرک تحریک کشمیر اور آسام کی تحریک ہیں جہاں کی پوری آبادی بھارت سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔
اس صورتحال سے یہ بات کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بھارت کی دہشت گردی اور جنگی جنون سے پاکستان، افغانستان اور چین تینوں ممالک کو جنگ اور دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ تینوں ممالک مل کر بھارت کو ایک ایسا سبق سکھائیں کہ وہ کشمیر کو آزادی دینے کے لیے تیار ہو جائے۔ گل بدین حکمت یار اس سے پہلے بھی بھارت کو سمجھا چکے ہیں وہ افغانستان میں امن عمل سے دور رہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر افغانستان کا امن اور کشمیریوں کی آزادی ایک دوسرے سے نتھی کر دی جائے گا۔ اب گل بدین حکمت یار کے دورے کے بعد ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ بھارت نے آسٹریلیا، جاپان اور امریکا سے مل کر ’’کواڈ عسکری اتحاد‘‘ بنا لیا ہے۔ بھارت کے ساتھ اسرائیل اور چند عرب ممالک بھی اتحادی بنے ہوئے ہیں جس کے جواب میں پاکستان، چین، افغانستان کے ایک نئے اتحاد کی ضرورت تھی اور اب گل بدین حکمت یار اسی اتحاد کو مضبوط اور ’’کشمیر یوں کی آزادی‘‘ کا پیغام لے کر آئے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ، پاکستان، بھارت اور ایران کے دورے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ وہ سب کے لیے قابل ِ قبول ہیں، عبد اللہ عبداللہ کو اس بات کا عندیہ ملا ہے کہ افغان حکومت کے موجودہ سیٹ اپ میں تبدیلی سے آئندہ کی حکومت طالبان کو مل جائے گی۔ لیکن کیا کیا جائے طالبان کے ہاں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں منفور ہیں، عبداللہ عبداللہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان حالیہ مذاکرات کی کوششوں سے زیادہ پرامید نہیں اور دل سے نہیں چاہتے کہ طالبان گروہ اس سے زیادہ مفادات حاصل کرے۔
جون 2008ء لاہور میں سابق امیر ِ جماعت اسلامی سید منور حسن نے کارکنوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اب امریکا کے پاس پاکستان کو مذاکرات سے دور رکھنے کا کوئی اخلاقی جواز موجود نہیں، خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے کہ امریکا اپنی افواج کو افغانستان سے جلد از جلد نکالنے کا انتظام کرے اور مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مکمل انخلا کی شرط کو تسلیم کرلے۔ امریکا افغانستان کی اصل قوت اور متحارب فریق سے مذاکرات کرنے کا پابند ہے۔ سید منور حسن نے کہا کہ افغا ن حکومت کا مذاکرات میں شرکت کا مطالبہ درست مگر معاہدے کے اصل فریق امریکا اور طالبان ہی ہیں۔ افغان حکومت کی حیثیت امریکی مہرے سے بڑھ کر نہیں، اس لیے افغان حکومت کو اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے مذاکرات میں تعطل نہیں ڈالنا چاہیے، ان کی غیر سنجیدہ کوششوں سے خطے سے امریکی و ناٹو افواج کے انخلا میں بھی تعطل پیدا ہو سکتا ہے جس کا نقصان افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی ہوگا۔
ایسا محسوس ہو تا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سید منور حسن کی یہ نصیحت پڑھ لی ہے کہ امریکا جو اس جنگ سے ناقابل تلافی نقصان اُٹھا رہا ہے اور اسے افغانستان میں شکست کے سوا کچھ حاصل نہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں چاہتے کہ اس جنگ میں شامل رہ کر اپنے شہریوں کو اس جنگ کا ایندھن بنایا جائے۔ اب تو امریکی انتخاب بہت قریب ہیں اول تو اس بات کی بہت کم توقع ہے 3نومبر 2020ء کو امریکی انتخابات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا ہو گا لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تب بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 25دسمبر کرسمس تک امریکا کے صدر ہوں گے اور عقل مندی کا یہی تقاضا ہے کہ امریکا اپنی بقا اور سلامتی کے لیے فوری طور پر افغانستان سے نکل جائے۔