کراچی(تجزیہ:محمدانور)مزارقائدپر(ن) لیگ کے رہنما کیپٹن (ر)صفدر اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی سیاسی نعرے بازی پر قانون کے تحت فوری کارروائی نہ کیے جانے سے شروع ہونے والے مضحکہ خیز واقعات کی بازگشت تاحال جاری ہے جبکہ سندھ
پولیس کے ان 26 اعلیٰ افسران سمیت متعدد میں تاحال تشویش پائی جاتی ہے جبکہ بیشتر اپنی سروس کے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔اس معاملے پر سابق سی سی پی او کراچی شعیب سڈل کی سوشل میڈیا پر پر چلنے والے آڈیو ٹیپ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس واقعے کو ایک اہم ادارے سے منسلک کرکے ملک کو بدنام کرنے کی سازش 2 بڑی جماعتوں کے سربراہان کی ٹیلیفونک گفتگو میں تیار کی گئی تھی۔ادھر سندھ پولیس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد سب سے پہلے ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ کراچی نے سب سے پہلے چھٹی کی درخواست دی جس کے بعد بطور احتجاج دیگر پولیس افسران کی درخواستیں آنے لگیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر سازش کے تحت صرف ملک کے جاری نظام کو بدنام کرنا تھا تاہم پولیس افسران کے احتجاج پر جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نوٹس لیا اور انکوائری کا حکم دیا تو پولیس افسران مبینہ طور پر گھبراہٹ کا شکار ہوگئے اورواپس ڈیوٹیوں پر آگئے۔حالات سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اس صورتحال میں زیادہ گھبراہٹ میں نظر آرہی ہے ایسی صورت میں وہ اپنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی جو آرمی چیف کی پہلے تشکیل شدہ تحقیقاتی کمیٹی کو نہ ماننے کے مترادف ہے حالانکہ آرمی چیف نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد کورکمانڈر کراچی کو انکوائری کا حکم دیا ہے۔ قوانین کے تحت اس کمیٹی کی موجودگی میں کوئی دوسری کمیٹی نہیں بنائی جاسکتی۔ صوبائی حکومت کی طرف سے یہ کمیٹی قائم کرنا غیر مناسب عمل ہے ۔