اب اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن شور شرابا کر رہے ہیں۔آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا کے معاملے پر دونوں طرف سے بیانات کی توپیں چل رہی ہیں۔ تحقیقات اپنی جگہ جاری ہے۔ عوام کی توجہ ہٹانے کا تاثر اس لیے پیدا ہوا کہ سیاست کے نو آموز وزیراعظم نے کھل کر میڈیا کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو اس شور شرابے میں اضافے کا حکم دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزرا خاموش کیوں ہیں ریاستی بیانیے کی جنگ فرنٹ فٹ پر لڑیں۔ سینیئر وزرا فیاض الحسن چوہان کی طرح کھل کر سامنے آئیں اور فیاض الحسن چوہان کیا کر رہے ہیں وہ بھی وہی کر رہے ہیں جو دیگر وزرا اور مشیر کر رہے ہیںلیکن وزیراعظم کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اس حکم کے بعد وفاق کے وزرا، مشیر اور معاونین بھی چڑھ دوڑے ہیں۔ اب صبح سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو مواد ملنا شروع ہو جاتا ہے۔اس شور اور ہنگامے میں لوگ اصل معاملات بھولتے جا رہے ہیں اگر آئی جی سندھ والا معاملہ ہی لے لیا جائے تو اس پر بات کی جائے اس کے حاشیوں پر کیوں بات ہو رہی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ آئی جی کے گھر کا گھیرائو ان کو رات کے وقت گھر سے لے جانا، ہراساں کرنے اور اغوا کرنے کے زمرے میں آتا ہے اس کا نوٹس تو وزیراعظم کو لینا چاہیے۔ وفاق کے نمائندے آئی جی کو ہراساں کیا گیا ہے۔ لیکن حکومت کو یہی فائدہ ہوا ہے کہ اب لوگ چینی، آٹا، پیٹرول، کے الیکٹرک کو بھول رہے ہیں اور ایک کروڑ ملازمتوں یا پچاس لاکھ گھروں پر سوال بھی نہیں کر رہے۔ میڈیا ایجنڈے کے مطابق چل رہا ہے اسے فی الحال یہ سیاسی منظر نامہ پیش کرنے کا ایجنڈا دیا گیا ہے جس میں سیاست دان ایک دوسرے سے الجھے ہوئے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ اس معاملے پر درست تبصرہ کیا گیا ہے کہ آئی جی جیسے حساس معاملے پر عدلیہ یا پارلیمنٹ کو نوٹس لینا چاہیے۔ کسی اور کو نہیں۔لیکن وزیراعظم نے شور شرابے میں اضافے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگ اصل مسائل پر توجہ نہ دے سکیں۔ وزیراعظم کو تو سب کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ سخت بیان بازی شور شرابا وزیراعظم کی حکومت کے مستقبل کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔