امریکا چین سرد جنگ سنگین رخ اختیار کرسکتی ہے ، پاکستان کو متوجہ اور خبردار رہنا ہوگا۔امریکا چین کشیدگی تجارتی جنگ نہیں، امریکا کا اصل ہدف کچھ اور ہے ۔ملک بھر سے اہل علم و دانش تاجروں اور صنعتکاروں نے جسارت کے سوال کے جواب کہا کہ اس کا سادہ سا جواب تو وہ تجارتی معاہدہ ہے جس پر2019ء میں صدر ٹرمپ اور چین کے نائب وزیر اعظم لیو ای کا اوول آفس میں اتفاق ہوا تھاتاہم دونوں ممالک میں جاری کشیدگی تجارت سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی چیئر پر سن ڈاکٹر پروفیسر ثمر سلطانہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تبدیلی ہو رہی ہے اور اس میں بے ہنگم اور نام نہاد طاقت کا زور دکھانے کا وقت ختم ہو گیا ہے،جرم کو سیاست سے الگ کیا جارہا ہے اور اس وقت بھارت سمیت ہر ایک کی برتری کو ختم کر نے کی ضرورت ہے ،اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ تجارت کو بڑھانے کے لیے جنگ کا راستہ اختیار کیاجاتا ہے،دنیا میں ایک طویل عرصے سے تجارت کو مضبوط بنانے کے لیے جنگوں کا سہارا لیا جارہا ہے ۔اب اسی” ایف اے ٹی ایف “پر نظر ڈالیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ ” ایف اے ٹی ایف “کا مقصد پاکستان کو بلیک میل کرنا ہے۔20اکتوبر2020ء کو شروع ہو نے والے اجلاس سے پتا چلتا ہے ” ایف اے ٹی ایف ” نے پاکستان کودوبارہ ’ واچ لسٹ‘ میں ڈال دیااور ایک مرتبہ پھر” بلیک میل کیا جائے گا یہ بھی ایک جنگ کی صورتحال ہے اوریہ سب کچھ دنیا بھر میں پاکستان کی تجا رت کو ختم یا کم کر نے کے لیے کیا جارہا ہے ،ملک اورخطے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے ،یہ سب کچھ سرد جنگ ہی ہے اور اس سے غریب ممالک کو نقصان ہو گا۔یونیورسٹی آف گجرا نوالہ کے پروفیسر ڈاکٹررمضان شاہد نے کہاکہ ‘امریکا میں یہ احساس پایا جا رہا تھا کہ چین کے حوالے سے ہماری پالیسی کام نہیں کر رہی،خطے کی صورتحال میں’حالیہ برسوں میں امریکا کے چین کے حوالے سے رویے میں واضح طور پر منفی تبدیلی آئی ہے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ تبدیلی صدر ٹرمپ کی “وائٹ ہاؤس” میں آمد کے ساتھ ہی آ گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں جاری تجارتی کشیدگی میں اضافے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ 2001 ء میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں چین اور امریکا دونوں کی شمولیت کے موقع پرجو انہوں نے معاشی وعدے کیے تھے ان وعدوں کو انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا اور نہ ہی ” ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ” نے کبھی ان سے معلوم کیا کہ امریکا اور چین نے وعدے کیوں پورے نہیں کیے،دونوں ہی اپنے اپنے مفادات کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شامل ہو ئے تھے ۔ اب بھارت اور چین کی جنگ کا جائزہ لیا جائے تواس بات پر بھی دیکھنا ہوگا کہ” آبنائے ملاکہ سے چین کی 801انرجی سپلائی لائن گزرتی ہیں، بھارت اینڈامین اور نیکوبار نامی جزیروں پر اپنی نیوی کی تعداد بھی بڑھا رہا ہے اور اس اڈے کومضبوط بناتے ہوئے بھارت اپنی بحری لڑائی کی صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے اور اپنی آبدوزوں میں جدت لانے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بھی تیزی سے بڑھا رہا ہے تاکہ بحرہند میں غلبہ پا سکے، اب وہ نیوکلیئر پاور آبدوزیں بھی تیار کر رہاہے، یہ جزیرے جنگی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل آبنائے ملاکہ کے قریب واقع ہیں، تمام تیاری کا مقصد خطے میں امریکا کو مضبوط کر نا ہے،اس طرح اگردیکھا جائے تو امریکاچین تجارت مسئلہ نہیں اس کا اصل ہدف کچھ اور ہے۔چین کی جانب سے” بیلٹ اینڈ روڈ “کے جواب میں ہیلری نے” نیو سلک روڈ کا نظریہ”اور پینٹا گون نے “کواڈـ”عسکری ونگ بنانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔اس کے علاوہ بھی امریکا کی جانب سے متعدد نظریات کی وجہ سے ایک نئی سر داور اب گرم جنگ میں تبدیل ہورہی ہے،صدر ٹرمپ نے اس جنگ میں تیزی پیدا کر دی ہے،اگر چہ اس بار حالات گزشتہ صدی سے مختلف ہیں لیکن زیادہ سنگین رخ احتیار کر سکتے ہیں،اس پر دنیا کو کم اور پاکستان کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے،عالمی سیاست میں اس کے اثرات پڑنے شروع ہو گئے ہیں ،مختلف خطوں میں جنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور چھوٹے علاقائی گروپ بنا ئے جارہے ہیں۔صدر آذربائیجان چیمبر آف کامر س اینڈ انڈسٹری اور “ای سی اوـ” چیمبر کے صدر آذرخش حا فظئی ڈاکٹر ہا دی نے جسارت سے وڈیولنک پرگفتگو کر تے ہوئے کہا کہ ” آذر بائیجان”پر آر مینیا جنگ نے میدان کھول کر اس کی معیشت کوتباہ کر نے کی کوشش کی ہے لیکن “آذر بائیجان”یہ جنگ جیت کر اپنی معیشت کوبہتر بنائے گا ،پاکستان کی حکومت اورعوام نے “آذر بائیجان”کی حمایت کر کے “آذر بائیجان”کے عوام پر بہت بڑا احسان کیا ہے ،وقت آنے پر ہم بھی پاکستان کے ساتھ ہوں گے ۔”آذر بائیجان”بھی کشمیریوں کی حمایت کر تا ہے اور وہ وقت بہت جلد آئے گا جب کشمیر بھی آزاد ہو گا اور نئے تجارتی بلاک بنا کر کام کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ”بیلٹ ایڈ روڈ ” منصوبے کونا کام بنانے کے لیے جنگ میں جھونک دیاگیاہے ۔انہو ں نے رکن ممالک کے در میان سر حد پار تجا رت بڑھانے کی بھی تا ئید کی۔ صدر ایف پی سی سی آئی انجم نثار نے کہا کہ دنیا بھر میں ” اس وقت صرف تجارتی جنگ ہو رہی ہے “آذر بائیجان”پر آرمینیا نے معیشت کو تباہ کر نے کے لیے حملہ کیا ہے، خطے میںامریکا اور چین کا نہیں معیشت کا مسئلہ بڑھ رہا ہے اور اس پر کنٹرول کر نے کی ضرورت ہے “سی پیک “سے ملحقہ منصو بو ں میں سر ما یہ کاری شروع ہو نے سے مو جودہ قدر تی و سا ئل کو بروئے کار لا نے میںآسانی ہو گی، خطے میں پا ئیدار خوشحالی آ ئے گی ، نجی شعبے نے ہمیشہ علاقا ئی اور عا لمی معیشتو ں میں معا شی سر گر میوں کے فر وغ کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ تجا رت و سرمایہ کاری میں اضا فے کے لیے امریکا اور چین دونو ں کی یہی کوشش ہے کہ اشیا ء اور خدمات کی آزاد نقل و حر کت ، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور تجارتی تنا زعات کے حل کے لیے میکنز م بنا یا جائے، امریکا اور چین کو ئی بھی جنگ نہیں چاہتا ہے لیکن تجارت بڑھانے کے لیے جنگ کا راستہ اختیا ر کیا گیا ہے۔ملک کے سب سے بڑے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کر اچی کے بر سر اقتدا ر بزنس مین گروپ کے سر براہ سراج قاسم تیلی نے کہا کہ “جنگ صر ف تجارتی ہے “اور امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ جو اب گرم جنگ میں تبدیل ہو گئی اس کی شروعات بھی” تجارتی جنگـ” سے ہو ئی ہے اس لیے یہ کہنا کہ جنگ کا مقصد نظریہ ہے ٹھیک نہیں ہے ۔انہوں کہا کہ عالمی سیا ست میںہر ملک اپنی آسانی کے مطابق اتحاد بنا رہا ہے اور بناتا رہے گا اور پاکستان بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی معیشت کوکورونا وائرس سے نقصان کا سامنا ہے اور اس وبا میں بلا جواز بھی بہت کچھ شامل کر کے” بیماری” کومعیشت کی تباہی کا سامان بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، یہ حالات دنیا بھر اور پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔بیماری کو افواہ بنایا جارہا ہے اور اس سے خوف پھیلایا جارہا ہے اور عمران خان نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کر کے ملک کی معیشت کومکمل تباہی سے بچایا ہے۔پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ اس سے طاقت کا مرکز مغرب سے مشرق منتقل ہو جائے گا ۔تمام تر دبائو کے باوجودپاکستان اس منصوبے میں بھرپور تعاون کر رہا ہے اور سی پیک تیزی سے زیر تکمیل ہے جس کے جواب میں امریکا اور بھارت پاکستان کے مخالف ہو گئے ہیں۔ 125 ممالک اور 40 بین الاقوامی تنظیمیں بی آر آئی سے منسلک ہوچکی ہیں اور مزید درجنوں ممالک اور تنظیمیں اس میں شمولیت کی خواہاں ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے کہ مغربی اقتصادی نظام نے دنیا میں تنازعات غربت اور ایشیائی و افریقی ممالک کے وسائل لوٹنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔اس منصوبہ میں کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے جبکہ 1 ہزار ارب ڈالر مزید خرچ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس میں سے پاکستانی صنعت، خدمات اور آئی ٹی وغیرہ کے شعبوں کو اپنا بھرپور حصہ لینے کی ضرورت ہے۔اس منصوبہ کو چینی سازش قرار دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ90 فیصد سے زائد ممالک مغربی ملکوں اور اداروں کے مقروض ہیں۔ یہ ممالک اپنی سالانہ آمدنی کا 30 سے40 فیصد تک قرضوں کی اقساط ادا کرنے پر مجبور ہیں جو کہ مغربی کی نام نہاد ترقیاتی امداد کا نتیجہ ہے۔ اس امداد نے غریب ممالک کو مقروض تو کر دیا ہے مگران کی ترقی میں بہت ہی معمولی کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان چین کی مدد سے خطے میںہندوستان کے غلبے کی خواہش کو ناکام بنائے اورہر مشکل گھڑی میں کام آنے والے دوست ملک چین کو کسی قیمت پر ناراض نہ کرے ۔