اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) ملک میں ٹیکس کم جمع ہونے کی بنیادی وجہ ایف بی آر ہے اس میں اصلاحات لائے بغیر ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا، خیراتی اداروں پر لوگوں کا اعتماد ہوتا ہے لہٰذا ان کے لیے عطیات جمع کرنا آسان عمل ہے، حکومت لوگوں کو سماجی سہولت فراہم کرے تو ٹیکس جمع ہونے کی رقم بڑھ سکتی ہے جب خیراتی اداروں کو دینے کی بات آتی ہے تو پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سالانہ جمع ٹیکس سے زیادہ خیرات اور صدقات کی رقم جمع ہوجاتی ہے اور خیراتی اداروں کے ذریعے تقسیم کی جاتی ہے، ملک میں یہ رقم مجموعی جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ حصہ بنتا
ہے، یورپی ممالک میں بھی چیریٹی کے لیے ایک بڑی رقم جمع ہوتی ہے جو اس کی مجموعی جی ڈی پی کا 1.3 فیصد ہے اسی طرح کینیڈا میں بھی چیریٹی کی رقم کل جی ڈی پی کا 1.2 فیصد ہے پاکستانی خیراتی اداروں کو سالانہ 2 ارب ڈالر سے زائد رقم ملتی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق یہ رقم 300ارب روپے ہے، ملک میں 98 فیصد لوگ کسی نہ کسی شکل میں دیتے ہیں، نقد عطیات یا ضرورت مند معاشرتی ہمدردی کے احساس کے تحت زیادہ تر عطیات براہ راست مستحق افراد میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور خیراتی تنظیموں کو دی جانے والی رقوم اس سے الگ ہیں، گزشتہ دنوں ایک سروے ہوا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد خیراتی اداروں کے بجائے براہ راست مستحق افراد کو امداددی رقم دیتی ہے ایسے پاکستانیوں کی تعداد 67 فیصدہے اوراسی موضوع پر سروے میں 33 فیصد افراد نے اپنے جواب میں بتایا کہ وہ خیراتی تنظیموں کو امدادی رقوم دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں وہ نقد عطیات دیتے ہیں عطیات کی چار بڑی وجوہات ہیں جو پاکستانی معاشرتی سوچ رکھنے والی تنظیموں سے زیادہ افراد کو دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ نقد عطیات زیادہ کثرت سے تھوڑی مقدار میں اور مستقل بنیادوں پر دیے جاتے ہیں ایک چھوٹی سی مثال ایسی بھی ہے کہ لوگوں کی اپنی برادری کی بنیاد پر خاندان اور محلے اور مساجد کی سطح پر چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں جو ضرورت مندوں کے لیے خیراتی کام کرتی ہیں،مساجد اور مدارس کو بھی یہ رقم دی جاتی ہے، بلوچستان کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ معروف سیاست دان نواب غوث بخش باروزئی نے جسارت کے ساتھ اس موضوع پر بات کی اور اپنے مشاہدات بھی بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں خیرات کی رقم اس لیے زیادہ جمع ہوتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقی مدد اور تعاون کا جذبہ ہے تاہم اس میں آسانی یہ بھی ہے کہ اس رقم پر نیب جیسے ادارے پوچھ گچھ نہیں کرتے اورٹیکس کی رقم کم جمع ہونے کی وجہ نظام ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم ریاست مدینہ جیسی کوئی مثال اب اس وقت سامنے لاسکتے ہیں تو پھر ہمیں لوگوں کو سماجی سہولتیں ان کی دہلیز پر پہنچانا ہوں گی، اس وقت ریاست مدینہ کی بہت بات ہو رہی ہے مگر یہ منزل ابھی دور تک نظر نہیں آتی، جس قدر خیرات کی رقم جمع ہوتی ہے اس سے ہم اپنے پس ماندہ اضلاع کو ترقی بھی دے سکتے ہیں، ہمارے ہاں سبی میں غربت ہے اور یہاں کے لوگوں کے پاس صحت اورتعلیم کے لیے بنیادی سہولتیں تک نہیں ہیں، ہمیں اپنے ملک میں ٹیکس چوری کے عناصر ختم کرنا ہوں گے تاکہ ٹیکس زیادہ جمع ہو، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے کہا کہ ریاست اور حکومت ٹیکس کی رقم اپنے لوگوں کو سماجی سہولتوںکی فراہمی کے ذریعے واپس کرنے کا کوئی لائحہ عمل اور منصوبہ بنائے تو ٹیکس زیادہ جمع ہوسکتا ہے، لوگوں کو حکومت کے اداروں کو اعتبار نہیں ہوتا لہٰذا اسی لیے ٹیکس کم جمع ہونے کا یہ مسئلہ ہمیں درپیش رہتا ہے، جب لوگ حکومت کے اداروں اور عوام کے لیے اس کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کے حوالے سے مطمئن نظر آئیں گے تو جمع ہونے والے ٹیکس کی رقم بھی بڑھ جائے گی۔ سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے سابق رکن عباس آفریدی نے بتایا کہ ملک میں ٹیکس نیٹ کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ٹیکس کی رقم میں اضافہ ممکن نہیں ہے ہر پاکستان ٹیکس دینے کو تیار ہے مگر اسے ایف بی آر کی جانب سے بلاجواز تنگ کیا کایا جاتا ہے لہٰذا وہ اپنی آمدنی کا حجم بتاتا ہی نہیں ہے۔ ایف بی آر ہر سال پرانے ٹیکس دہندگان تک ہی رسائی کرتا رہتا ہے اور نئے ٹیکس دہندگان کے لیے نہیں سوچتا ملک میں چونکہ ٹیکس دینے کا عمل بہت مشکل ہے لہٰذا ہر شہری سوچتا ہے کہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہی رہا جائے تو بہتر ہے اس لیے ٹیکس کم اکٹھا ہوتا ہے اور خیراتی اداروں کے لیے جب عطیات دیے جاتے ہیں تو اس پر چونکہ رعایت مل جاتی ہے لہٰذا خیراتی اداروں تک عطیات زیادہ پہنچ جاتے ہیں، قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے رکن اور سابق رکن قومی اسمبلی رشید گوڈیل نے کہا کہ خیرات اور زکوٰۃ تو ایک مذہبی فریضہ ہے اور اخلاقی ذمے داری بھی ہے، اسی لیے لوگ اسے ذمے داری کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی رکن سینیٹ سیمی ایزدی، اسلام آباد کی یونین کونسل کی چیئرپرسن بھی رہی ہیں ان سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے جسارت کوبتایا کہ خیرات کرنے والے حضرات سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جہاں یا جس ادارے کو وہ مستحق افراد کے لیے خیرات دے رہے ہیں کیا وہ اس کا درست استعمال بھی کرتے ہیں یا نہیں، شوکت خانم میں عطیات کا استعمال اس لیے عمران خان پر بہت اعتبارہے۔ انہوں نے نمل یونیورسٹی بنائی، شوکت خانم اسپتال کو ہر سال بہت زیادہ خیراتی رقم ملتی ہے کیونکہ وہاں مستحق افراد اور مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیکس کم ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہرٹیکس دہندہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ ٹیکس کے بدلے میں حکومت اور ریاست اسے کیا دیتی ہے، ہر شہری کو سماجی انصاف چاہیے، روزگار چاہیے، امن چاہیے اور عزت نفس چاہیے، یورپی ممالک میں شہریوں کو تعلیم، صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں حکومت خود آگے بڑھ کر خدمات دیتی ہے لہٰذا وہاں خیراتی رقوم کے علاوہ ٹیکس کلچر بھی بہتر ہے اور پاکستان میں ٹیکس کم اکٹھا ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کے لیے کچھ نہیں کرے گی لیکن تحریک انصاف کی حکومت بن جانے کے بعد ملک میں ٹیکس کے لیے سوچ بدلی ہے اور اب یہاں ماضی کی نسبت زیادہ ٹیکس اکٹھا ہورہا ہے، ملک بھر کے تاجروں اور صنعت کاروں کی ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے مرکزی رہنما عبدالرحمن مرزا نے جسارت کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ملک میں ٹیکس چوری کا کلچر ہے اور دوسری جانب صدقہ خیرات ہم کرتے ہیں اور اس میں ذیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں اور اسے مذہبی فرض بھی سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب ٹیکس چوری کرنا اور ٹیکس نہ دینا بھی ہم نے اپنی عادت بنائی ہوئی ہے اور کوئی شہری بھی ٹیکس دے کر خوش نہیں ہوتا ہے ہاں مجبوری میں ٹیکس دیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ وزارت خزانہ کے اہم ذریعے نے بتایا کہ خیراتی اداروں کے لیے حکومت بہت سی رعایت رکھی ہیں اور انہیں ٹیکس کی بہت سی چھوٹ ہے، لہٰذا لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد خیراتی اداروں کو فنڈز دے کر حکومت سے رعایت لے لیتی ہے، جب کہ ٹیکس دے کرانہیں واپس کچھ نہیں ملتا، اس لیے بھی خیرات اور ٹیکس کی رقم میں ایک بہت بڑا فرق نظر آتا ہے، دریں اثنا جسارت کو ذرائع نے بتایا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے لیے ٹیکس کے نظام کو سہل بنانے کی ہدایت کردی ہے ایس ایم ایز کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے، اس لیے چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ایف بی آر اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کے حوالے سے وزیر اعظم کو ان کے معاون خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود نے وزیرِ اعظم کو ایف بی آر اور ٹیکس نظام میں اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی ہے ملکی معیشت کے استحکام کے لیے ٹیکس بیس میں اضافہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ ایف بی آر کو جدید خطوط پر استوار کرنا ضر ری ہے۔ ایف بی آر اور ٹیکس کے نظام میں ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے گی تاکہ اس نظام کی شفافیت لائی جائے ،حکومت غیر ضروری ودہولڈنگ ٹیکسز ختم کردے گی ٹیکس گزاروں کے لیے نظام خصوصاً گوشواروں کا نظام آسان بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے غیرضروری ود ہولڈنگ ٹیکسز ختم کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ٹیکس کے نظام میں ٹیکنالوجی متعارف کرایا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے محکمہ ایکسائز کو بھی آن لائن ٹوکن ٹیکس ادا کرنے سہولت دینے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ جس کے بعد محکمہ ایکسائز نے ایک ایپلیکیشن بھی متعارف کروائی ہے جس سے آن لائن گاڑیوں کا ٹوکن ٹیکس ادا کیا جا سکے گا۔