سوڈان میں سیاسی تبدیلی کا عقدہ کھ گیا

208

ایک دہائی قبل تک رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک کہلانے والے سوڈان نے بھی غاصب صہیونی ریاست کو تسلیم کرلیا۔ سوڈان کی نیم فوجی حکومت نے یہ فیصلہ امریکی ایما پر کیا ہے۔ اس پیش رفت نے گزشتہ سال اس ملک میں سیاسی تبدیلی کے اہم مقاصد کو واضح کردیا ہے۔ سوڈان پر 1989ء سے فوجی صدر عمر البشیر کی حکومت تھی۔ ان کے دور میں امریکا اور سوڈان کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہوچکی تھی کہ اسے پاٹنا شاید ممکن نہیں رہا تھا۔ عمر البشیر نے سوڈان کو دہشت گردی کے معاون ممالک کی امریکی فہرست میں شامل کیے جانے سے جنم لینے والے انتہائی کٹھن معاشی حالات کو برداشت کرلیا تھا اور سوڈانی قوم بھی اس صورت حال میں جینا سیکھ چکی تھی۔ اس لیے بظاہر امریکی حکومت عمر البشیر سے مایوس ہو چکی تھی اور اسے سوڈان میں سیاسی تبدیلی ناگزیر معلوم ہو رہی تھی۔ دسمبر 2018ء میں مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والا احتجاج عمر البشیر کے 30 سالہ اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوا۔ لیکن عالمی طاقتوں نے کمال مہارت سے اس سیاسی عوامی تحریک کے ثمرات سوڈان کی فوجی قیادت کی جھولی میں ڈال دیے۔ فوج نے عمر البشیر کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا، لیکن عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ مجبوراً فوج نے سیاسی قوتوں کے اشتراک سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالفتاح برہان کی زیرقیادت انتقالِ اقتدار کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی، جس نے ایک عبوری حکومت قائم کرتے ہوئے عبد اللہ حمدوک کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ اس حکومت اور کمیٹی کے پاس موجودہ آئین کے منافی کسی قسم کا کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی دباؤ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، جو غیرآئینی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوڈان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ملک، قوم اور آئین سے غداری قرار دیا ہے۔ سوڈان میں ہونے والی یہ پیش رفت بتاتی ہے کہ عالمی طاقتیں کس طرح مختلف اسلامی ممالک میں جمہوریت، آمریت اور بادشاہت کی صورت میں اپنی مرضی کی قوتوں کو برسراقتدار لا کر امت مسلمہ کے اہم قضیوں اور دیرینہ مواقف میں دراڑ ڈالنے کے لیے کوشاں ہیں۔