اور کتنا صبر وزیراعظم صاحب…

340

اب گنتی نئے سرے سے شروع ہو گی۔ 71 سال اور 24 مہینے کے بعد وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ قوم صبر کرے، پاکستان طاقتور ملک بنے گا، قومیں کپاس اور کپڑا فروخت کرنے سے نہیں انسانوں اور تعلیم پر پیسہ لگانے سے امیر ہوتی ہیں۔ وزیراعظم نے عیسیٰ خیل میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مدینے کی ریاست کا اصول تھا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں جہاں ظلم ہو وہاں اللہ کی برکت نہیں آتی۔ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم اور ناانصافی کا نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نیازی کی حکومت کو دو سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور دو سال میں ملک جس تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ظلم اور ناانصافی کا نظام چل رہا ہے، امیر غریب کے الگ الگ قانون ہیں پھر برکت کہاں سے آئے گی۔ اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور یہاں حکومت سود پر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ اللہ اور رسول سے جنگ کرنے والی حکومت ریاست مدینہ تو نہیں بنا سکتی۔ ویسے تو انہوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی حکومت کی ترجیح تجارت نہیں تعلیم کا حصول ہے لیکن ایسا ہے کیا عمران خان کی حکومت میں تعلیم کا حصول آسان ہو گیا ہے؟ وہ خود جائزہ لے کر بتائیں کہ تعلیم کا بیڑا کس نے غرق کیا۔ عام آدمی کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول خواب بن کر رہ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مدینے کی ریاست میں قانون سب کے لیے برابر تھا۔ لیکن جب سے وہ پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں غریب کے لیے الگ اور امیر کے لیے الگ قانون ہی چل رہا ہے۔ انہوں نے یہ بات درست فرمائی ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم اور نا انصافی کا نہیں لیکن عمران خان نیازی اور ان کے سلیکٹرز کا کمال ہے کہ پاکستان میں کفر کا سودی نظام بھی چل رہا ہے اور ظلم ناانصافی کا بھی۔ پھر بھی دعویٰ مدینے کی ریاست کا کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنی دانست میں طنز کیا ہے کہ قومیں کپڑا اور کپاس فروخت کرنے سے ترقی نہیں کرتیں انسانوں اور تعلیم پر پیسہ لگانے سے امیر ہوتی ہیں لیکن بات درست ہے کپاس اور کپڑے کی فروخت الگ معاملہ ہے اس سے ملک کو زرمبادلہ ضرور حاصل ہوتا ہے لیکن ایک فلاحی ریاست کے لیے اس ریاست کی پیداوار کا درست استعمال اور اگر فروخت کے قابل اشیا ہیں تو انہیں فروخت کرنے میں آسانیاں پیدا کرنا بھی ریاست کا کام ہے۔ کپڑا اور کپاس فروخت کریں گے تو تعلیم اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے پیسہ آئے گا۔ قرضے کے پیسے سے ترقی نہیں ہوتی۔ پاکستانی حکمرانوں نے 70 برس سے ملک کے عوام کو دھوکا دینے اور لوٹ مارکا نظام بنا رکھا ہے۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تو حکومت میں آنے کا مقصد ہی پیسہ بنانا یا اپنے خاندان کے بزنس کو ترقی دینا رہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں ان کے بیٹے بھی اونچے اڑ رہے تھے اور نواز شریف کا دور تو کوئی پرانا نہیں لوگوں کے سامنے ہے۔ ایک بھٹی سے لندن، سعودی عرب، دبئی، قطر اور نہ جانے کہاں کہاں جائدادیں بن گئیں۔ ان سب حکمرانوں نے عوام کو یہی طفل تسلی دی کہ تھوڑا صبر کرو پاکستان طاقتور ملک بن رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی اور داماد بھی پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بناتے رہے۔ ملک میں جتنی بھی ترقی ہوئی حکمرانوں کی اپنی یا غیر ملکی طاقتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے قوم کو صبر کرنے کا جو مشورہ دیا ہے یہی مشورے نواز شریف، بے نظیر، زرداری اور دوسرے حکمران دیتے رہے ہیں۔ دو سال میں عمران خان حکومت نے تعلیم پر جو کچھ محنت کی ہے وہ یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ سے متعلق اسباق نصاب سے خارج کر دیے گئے ہیں۔ حضرت عائشہؓ سے متعلق سبق خارج کر دیا گیا ہے۔ جہاد سے متعلق آیات غائب کر دی گئی ہیں اور اب بچوں کو اردو میں تعلیم دینے کے خلاف فیصلے ہو رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان المعروف مدینے کی ریاست میں نصاب پارسی بنائیں گے۔ مغربی ممالک کی اسکول چین فیصلے کرے گی اور دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے کم فہم لوگوں کے ماتحت کریں گے اور پھر بھی دعویٰ ہوگا کہ صبر کریں ملک کو طاقتور بنائیں گے۔ عمران خان صاحب آپ کی حکومت کے دو برس میں لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ بجلی نہیں ہے، ایندھن موجود نہیں ہے، سڑکیں کھنڈر بنی ہوئی ہیں، تجارت کا بیڑہ غرق ہے۔ برآمدات کے خلاف تو خود وزیراعظم نے بیان دے دیا ہے۔ عمران خان نیازی یہ بھی بتا دیتے کہ قوم کتنا صبر کرے۔ جو کچھ وہ کر رہے ہیں کیا اس سے ملک ترقی کرے گا اور امیر بنے گا۔ دو سوا دو سال صرف نواز شریف اور آصف زرداری کے پیچھے لگا دیے۔ اب بھی ان کا کچھ نہیں بگڑا ہے وہ خود کہہ رہے ہیں کہ کمزور لوگ یہاں جیلوں میں ہیں اور بڑے چور لندن میں ہیں۔ تو اس کا ذمے دار کون ہے۔ جس کو وہ بڑا چور قرار دے رہے ہیں اس کو تو خود حکومت نے ملک سے باہر بھیجا ہے۔ اب ایک دوسرے پر الزام تراشی کا کھیل جاری ہے۔ قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز بلکہ چھلک رہا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ جن لوگوں نے گزشتہ چار عشروں میں عوام کو دھوکے دیے جن پارٹیوں نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا صرف دو برس میں پی ٹی آئی حکومت نے ان ہی کے لیے عوام میں ہمدردی پیدا کردی ہے۔ جن لوگوں کو لوگ پہلے ہی کرپٹ اور نا اہل سمجھ رہے تھے پی ٹی آئی حکومت نے نا اہلی اور بدعنوانی کی مثال پیش کرکے ان ہی سابق حکمرانوں کو اپنے سے بہتر بنا کر رکھ دیا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کو اس بات کا شعور بھی نہیں ہے کہ ملک کو کہاں لے جانا ہے۔ وہ انتخابات سے قبل جو دعوے کرتے آئے تھے اور انتخابات کے بعد کیا کرنے لگے۔ ملک کو تباہی سے دوچار کرکے صبر کا مشورہ دینا خود ظالمانہ عمل ہے۔ وزیراعظم سنجیدگی اختیار کریں حکومت کے مخالفوں کو غدار قرار دینے کا رویہ ترک کریں۔ مسائل کے حل کی کوششیں کریں ورنہ جن لوگوں کو وہ بڑا چور کہہ رہے ہیں اور ان کے لندن میں ہونے پر افسردہ ہیں اور چھوٹے چوروںکو جیل میں ڈالے جانے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ یہی انجام خود ان کا نہ ہو جائے۔ پاکستانی سیاست کے شب و روز تو یہی بتاتے ہیں۔ پھر لوٹے لڑھکتے ہوئے نئی پارٹی میں یا اگر پرانی پارٹی سے اسٹیبشلمنٹ کی صلح ہو جائے تو سارے لوٹے وہاں پہنچ جائیں گے۔ عمران خان صاحب اپنا پہلا دعویٰ بھول گئے جس میں انہوں نے بھینسیں فروخت کرکے، مرغیاں اور انڈے تقسیم کرکے معاشی ترقی کی بات کی تھی۔ کپاس اور کپڑے کی فروخت تو مرغی اور انڈوں کے مقابلے میں زیادہ باوقار اور مفید ہے۔پاکستانی حکمران صرف سی پیک پر بھروسہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ سی پیک میں جو پیسے لگائے گئے ہیں ان سے فائدہ بھی پیسے لگانے والا اٹھائے گا۔ پاکستانی قوم تو سی پیک کے معاہدوں سے لاعلم ہے۔ ہمارے حکمران یہی کرتے ہیں کہ کمزور شرائط پر معاہدے کرکے آنے والے حکمرانوں اور قوم کو بھگتنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بہرحال قوم وزیراعظم کے مشورے پر صبر کرے یا نہ کرے اسے ایسا وزیراعظم ملنے پر صبر ضرور کرنا چاہیے۔