پی ڈی ایم اور جماعت اسلامی

437

سید منور حسن مرحوم نے ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں جس سیاسی اتحاد میں جماعت اسلامی شامل نہیں ہوگی وہ اتحاد کوئی تحریک نہیں چلا سکتا اور نہ ہی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی اتحاد بنے ان سب میں جماعت اسلامی شامل رہی ہے لیکن اب تک دو اتحاد ایسے ہیں جن میں جماعت شامل نہیں ہوئی ایک یہ موجودہ پی ڈی ایم اور دوسرا ضیاء الحق حکومت کے خلاف ایم آر ڈی اتحاد۔ ایم آر ڈی نے ضیاء الحق کے خلاف بڑی زبردست تحریک چلائی تھی لیکن یہ زیادہ تر اندرون سندھ تک محدود رہی شہروں میں یہ کامیاب نہیں ہو سکی پھر جنرل ضیاء الحق نے اس کو سختی سے کچل دیا اس اتحاد کے روح رواں نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم تھے اس اتحاد کو افرادی قوت پی پی پی نے فراہم کی تھی۔ ویسے تو اب تک جتنے اتحاد بنے وہ حکومتوں کو ہٹانے کے لیے بنائے گئے تھے لیکن بہت کم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے۔
ملک میں مارشل لا کی حکومت رہی ہو یا سول حکمرانی کا دور رہا ہو دونوں صورتوں میں حکومتوں کو ہٹانے کے لیے تحریکیں چلانا پڑیں ان تحریکوں کے لیے سیاسی جماعتوں کا اتحاد بننا لازمی تھا ایوب خان کے خلاف اتحاد نے تحریک چلائی ایوب خان اس بات پر آمادہ ہو گئے تھے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار منتقل کر دیں گے اس کے لیے انہوں نے سیاستدانوں کی ایک گول میز کانفرنس رکھی تھی کہ اس میں وہ اپنے اقتدار سے دستبردار ہو جائیں گے اور سیاسی جماعتوں کی عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو ملک میں انتخابات کروائے گی۔ یہ ایک بڑا اچھا موقع تھا کہ اس طرح اقتدار پر امن طریقے سے فوجی حکومت سے سول حکومت کی طرف منتقل ہو رہا تھا لیکن ہمارے ہی کچھ سیاستدانوں نے اس سنہری موقع کو گنوا دیا۔ پہلے تو بھٹو نے اس گول میز کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا انہوں نے یہ شرط رکھا کہ اس کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمن کو بھی بلایا جائے، شیخ مجیب اگرتلہ سازش کیس میں جیل میں بند تھے پھر ان کے بعد کچھ چھوٹی جماعتوں نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا۔ اس سوال کا ابھی تک قوم کو جواب نہیں ملا کہ بھٹو صاحب نے کس کے اشارے پر اس اہم کانفرنس کا بائیکاٹ کیا حالانکہ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے غالب امکان یہی تھا انہیں سول حکومت میں کوئی کلیدی رول مل جاتا۔
دوسری طرف جنرل یحییٰ خان بڑی باریک بینی سے حالات کے اتار چڑھائو کا جائزہ لے رہے تھے اور وہ شاید یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایوب خان سیاسی جماعتوں کو اقتدار منتقل کریں، اور ملک میں سول حکمرانی قائم ہو، پھر ایسے حالات پیدا ہوئے جس سے مجبور ہوکر جنرل ایوب کو استعفا دے کر اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کرنا پڑا بعد میں جنرل یحییٰ خان نے جس طرح ہر اہم مرحلے پر بھٹو صاحب کی بات مانی اور ڈھاکا کا جلاس ملتوی کیا یہ سب شاید کسی احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش تھی۔ ایوب خان کے خلاف جو تحریک چلی اس میں جماعت اسلامی کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ جنرل یحییٰ کے بعد جب بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو ان کے دور حکومت میں کئی اتحاد بنے۔ پہلا اتحاد اپوزیشن کا اسمبلی میں دستور سازی کے موقع پر بنا اس اتحاد میں پی پی پی کے علاوہ تمام جماعتیں تھیں، عارضی دستور تو نافذ تھا، اس دستور سے اپوزیشن کی جماعتیں مطمئن نہ تھیں لیکن اس لیے قبول کرلیا کہ یہ ایک سال کے لیے تھا۔ مستقل دستورکے لیے بھٹو صاحب نے جو مسودہ پیش کیا اس سے اپوزیشن کی جماعتیں متفق نہ تھیں۔ اس دستور کے بارے میں بھٹو نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ ہم نے جو دستور دیا ہے وہ اسلامی ہے، جمہوری ہے، وفاقی ہے اور پارلیمانی ہے دوسرے دن مولانا مودودی کا بیان شائع ہوا جو دستور دیا گیا ہے وہ نہ اسلامی ہے نہ جمہوری ہے نہ وفاقی ہے اور نہ پارلیمانی ہے۔ اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سخت کشمکش جاری تھی اور ایک قسم کا ڈیڈ لاک ہو گیا تھا کہ بھٹو نے اپوزیشن رہنمائوں کو ایک سخت اور اشتعال انگیز خط لکھا اور آخر میں دستور سازی کے حوالے سے مذاکرات کی دعوت دی، بھٹو کی چال یہ تھی اپوزیشن رہنما خط پڑھ کر مشتعل ہوں گے اور مذاکرات کی دعوت کو ٹھکرا دیں گے پھر ہم اپنی مرضی کا دستور اسمبلی سے منظور کروالیں گے بھٹو صاحب کا یہ خط اخبارات میں بھی شائع ہوا تھا ادھر حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس چال کو بھانپ لیا اور فیصلہ ہوا کہ ہم اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز جواب لکھ کر آخر میں مذاکرات کی دعوت قبول کرلیں گے۔ جماعت اسلامی کے سید منور حسن نے یہ جواب لکھا جو بہت سخت تھا اور تمام اخبارات میں یہ خط کو بھٹو صاحب کے خط کے جواب کے طور پر شائع ہوا اپوزیشن کے تمام رہنمائوں نے اس طرز تحریر کو بہت پسند کیا اور خاص طور پر خان عبدالولی خان نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس کے بعد مذاکرات کے کئی دور ہوئے اور ایک متفقہ اسلامی دستور اسمبلی سے منظور ہوگیا اس دستور سازی میں جماعت اسلامی کی کاوشیں سب جماعتوں سے زیادہ تھیں۔ بھٹو صاحب کے ظالمانہ طرز حکومت کے خلاف متحدہ جمہوری محاز کے نام سے ایک اتحاد بنا جس کے صدر پیر پگاڑا اور جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور تھے اس اتحاد کے ذریعے اسمبلی میں سرکاری بنچوں کو ٹف ٹائم دیا جاتا پھر بھٹو کے دور میں تیسرا اتحاد قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے حوالے سے بنا اس میں بھی جماعت اسلامی کی جدو جہد سب سے نمایاں تھیں اور یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور اسمبلی سے قادیانیوں کو متفقہ طور پر اقلیت قرار دینے کا بل منظور ہوگیا۔
بھٹو کے دور میں چوتھا اتحاد PNAپاکستان قومی اتحاد کے نام سے تشکیل پایا جس نے انتخاب میں حصہ لیا اور پی پی پی کی ریکارڈ دھاندلی کے خلاف زبردست تحریک چلائی پھر بعد میں اس کو تحریک نظام مصطفی کا نام دیا گیا یہ تحریک اس طرح سے تو کامیاب ہوگئی کہ بھٹو صاحب دوبارہ انتخابات کے لیے تیار ہو گئے اور اس کے لیے پاکستان قومی اتحاد سے مذاکرات ہوئے یہ مذاکرات کامیابی کی طرف جارہے تھے کہ چار جولائی کی رات کو مارشل لا لگادیا گیا۔ پی این اے کی تحریک میں جماعت اسلامی کے اہم رول کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا کہ پورے ملک میں جماعت اسلامی کے تنظیمی نیٹ ورک نے اس تحریک کو کامیاب بنایا۔
ایک اتحاد پرویز مشرف کے دور میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے بنا جس میں ملک کی تمام دینی جماعتیں شامل تھیں اس اتحاد نے 2002 کے انتخاب میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اس کی قومی اسمبلی میں 65سے زائد نشستیں تھیں اور صوبہ خیبر پختون خوا مجلس عمل کی حکومت بھی قائم ہوئی۔ اس اتحاد میں بھی جماعت اسلامی کوششیں اور قربانیاں سب سے زیادہ تھیں یہ اتحاد کیوں اور کیسے ختم ہوا یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ لیکن پوری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ متحدہ مجلس کے تحرک میں جماعت اسلامی کا رول سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ پی ڈی ایم میں جماعت اسلامی اس لیے شامل نہیں ہوئی کہ یہ اتحاد اصلاً کرپٹ جماعتوں نے اپنی کرپشن چھپانے یا بچانے کے لیے بنایا ہے کچھ جماعتوں کی اس میں عمران خان سے ذاتی مخاصمت کا بھی عمل دخل ہے۔ آج ہی مولانا فضل الرحمن کا ایک بیان شائع ہوا ہے کہ یہ انتخابی اتحاد نہیں ہے یہ صرف عمران خان کو ہٹانے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ جماعت اسلامی عمران خان کی حمایت کررہی ہے بلکہ وہ مہنگائی کے مسئلے پر نومبر کے مہینے سے موجوہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے جارہی ہے۔