سندھ حکومت تیری کون سی کل سیدھی !

205

محاورہ ہے ’’اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی‘‘ سندھ میں سندھی قوم پرست حکمرانوں کی طرز حکمرانی دیکھ کر یہ محاورہ مجھے بہت یاد آتا ہے۔ ان حکمرانوں نے حال ہی میں قانون پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرنے والی پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی اور مزار پر سیاسی نعرے لگانے والے خلاف قانون عمل کو مبینہ طور پر سیاسی بنانے کی کوشش کی، یہی نہیں بلکہ قانون پر عمل کرنے کی ہدایت کو بھی سیاسی بنادیا۔ نتیجے میں کراچی پولیس کے جس سربراہ کو قانون پر عمل کرانا تھا وہ اب ’’کورونا وائرس‘‘ کا شکار ہوکر کم ازکم 15دن کی چھٹی پر خود ساختہ قید میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ سی سی پی او کراچی غلام نبی میمن کو جلد از جلد شفا کاملہ عطا کرے، آمین۔ آئی جی پولیس سندھ مشتاق احمد مہر مذکورہ واقعے کے بعد غیر معمولی طور پر تشویش میں نظر آرہے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے احتجاجاً چھٹیاں حاصل کر لی تھیں جو بعد ازاں انہوں نے ازخود موخر کردی جس کی وجہ اس واقعہ کے بارے میں انکوائری کا حکم دیا جانا ہے۔ خیال رہے کہ آئی جی پولیس کے ساتھ صوبائی پولیس کے دیگر 26 اعلیٰ افسران نے بھی بطور احتجاج چھٹیوں کی درخواست دے دی تھی جو آئی جی کی جانب سے درخواست واپس لینے کے بعد واپس لی جاچکی ہیں۔ ماہر قانون اور سابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ پولیس لازمی سروس کا حصہ ہے اس لیے اسے احتجاج کا حق بھی نہیں ہے اس طرح کا احتجاج خلاف قانون و ضابطہ ہے۔
قوانین پر عمل درآمد کرنے یا کرانے پر پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی مثال آپ ہے۔ اس پارٹی کے ایک سابق منتخب رکن قومی اسمبلی قیوم جتوئی تو اس بات کا بھی برملہ اظہار ایک ٹی وی چینل پر کرچکے کہ ’’کیا ہمارا کرپشن پر کوئی حق نہیں ہے؟ جب سب اس ملک میں کرپشن کرتے آئے ہیں تو اب ہمارے کرپشن کرنے پر آپ لوگوں کو کیا تکلیف ہے؟‘‘۔
آج ہم اسی پارٹی کی صوبائی حکومت کی بات کررہے ہیں جہاں بے قاعدگی اور بدعنوانی نہ ہونا تعجب کی بات ہے۔ سندھ حکومت کے کسی بھی محکمے کی طرف نظر ڈالی جائے وہ ان کی لپیٹ میں ملیں گے۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں کا محکمہ اینٹی کرپشن بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے بلکہ بدعنوان قانونی طور پر کلین چٹ دلانے والا محکمہ بن چکا ہے۔ اس محکمے کے حوالے سے رواں سال یہ انکشاف ہوچکا ہے کہ اس نے سات ارب روپے کی کرپشن کے چھ مقدمات قائم کیے جن میں 40 ملزمان ملوث تھے مگر یہ مقدمہ جب عدالت میں پہنچا تو تمام ملزمان بری ہوگئے ان کے بری ہونے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ مقدمات ہی کمزور بنانے گئے تھے۔ گو کہ کرپشن کا سدباب اور کرپٹ سرکاری عناصر کو پکڑنے والا ادارہ ازخود انہیں مقدمات کے بعد کلین چٹ دلانے میں مصروف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سندھ میں موجودہ حکومت کے بارہ سال کے دوران اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا 2008 تا 2013 کا دور ختم ہونے کے بعد نئی حکمت عملی کے تحت نئے محکمے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن قائم کیا لیکن دونوں ہی ادارے 5،5 سال گزر جانے کے باوجود آج تک اپنے قیام کے مقاصد تک پورے نہیں کرسکے بلکہ یہی نہیں اپنا نظام بھی بہتر نہیں بناسکے جس کی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی بتائی جاتی ہے۔ سندھ کے حکمرانوں کے لیے یہ شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے کہ کراچی میں پانی کی فراہمی کا عظیم منصوبہ فنڈز کی دستیابی کے باوجود مقرر کردہ تاریخ گزرنے کے دو سال کے بعد بھی اسے مکمل نہیں کرسکی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت نے اب خود مکمل کرانے کے لیے اس کا کنٹرول سنبھال لیا۔
صوبائی حکومت کے ماتحت بلدیہ عظمیٰ کراچی سمیت صوبے کے تمام بلدیاتی اداروں کی حالت بھی تشویشناک حد تک خراب ہے۔ سندھ حکومت میں کرپٹ عناصر کے طاقتور ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود عدالت کے احکامات پر عمل نہیں کراسکی عدالت عظمیٰ نے کے ایم سی میں ڈیپوٹیشن پر خدمات انجام دینے والے افسران مسعود عالم، نعمان ارشد سمیت نصف درجن کو واپس ان کے اصل محکموں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا مگر تاحال حکومت اس پر عمل کرانے میں ناکام ہے۔ صوبائی حکومت کا حال یہ ہے کہ بیش تر بلدیاتی اداروں میں نااہل اور کرپشن میں ملوث افسران کو بحیثیت ایڈمنسٹریٹر تعینات کردیا جو ان دنوں بلدیاتی اداروں کے بدنام عناصر کو اپنے ساتھ ملا کر نئی کرپشن کے منصوبے بنارہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عدالت عظمیٰ کو مذکورہ اداروں کے تمام امور کا جائزہ لینے کے لیے سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔