1947ء میں برصغیر پاک وہند کی تقسیم ہوئی تو طے شدہ برطانوی ایجنڈے کے مطابق برصغیرکی دیگر ریاستوں کی طرح مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھی اس امر پر رائے شماری لازمی تھی کہ یہاں کے عوام بھارت اور پاکستان میں سے کس کے ساتھ اپنا سیاسی مستقبل وابستہ کرنا چاہتے ہیں۔ تقسیم کا فارمولا یہ طے ہوا تھا کہ جن ریاستوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں اُن ریاستوں کے عوام کی رائے سے وہ علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ لیکن جموں وکشمیر ریاست میں مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود اُن کی رائے کے برعکس انہیں بھارت میں ضم کردینے کی سازش ہوئی تو وادی کے عوام یہ ظالمانہ سیاسی فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے حق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عوامی مطالبہ کو دبانے اور جموں وکشمیر پر بزورطاقت قبضے کے لیے بھارت نے 27اکتوبر 1947ء کو جموں وکشمیر پر فوج کشی کردی اور تب سے ظلم وجبرکا سلسلہ جاری ہے۔ اس ظلم وجبر کے خلاف پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری ہر سال 27اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ گزشتہ سال 5اگست کو بھارتی حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت بھارتی آئین کے دو آرٹیکل نمبر 370 اور 35-A کو غیر موثر قرار دے دیا گیا۔ مودی سرکار ایسا کرتے ہوئے کیوں بھول گئی کہ مقبوضہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جسے بطور متنازع مسئلہ خود بھارتی حکومت کم و بیش 72برس قبل اقوام متحدہ میں لے کر گئی تھی۔ حالیہ برسوں میں وزیراعظم عمران خان کی جارحانہ سفارت کاری کے باعث تین مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کے بارے میں سفارتی کارروائی کی ہے۔ ادھر مودی سرکار کے اس غیرقانونی بلکہ مجرمانہ اقدام کے خلاف وادی کے عوام نے احتجاج کیا تو قابض بھارتی فوج نے وادی کو عملی طور پر باقی دنیا سے کاٹ کر وہاںکے عوام کو محصور کردیا ہے اور یہ سلسلہ ایک سال سے جاری ہے۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ تک کی سروس بھی بند ہے۔ وہاں پر ملکی یا غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کی رسائی تو الگ رہی ایک عام سیاح کو بھی وادی میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ مودی سرکار نے ایک طے شدہ منصوبے اور گہری سازش کے تحت مذکورہ دو آرٹیکل غیر موثر بنائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اپنی مرضی سے غیر کشمیری افراد کو لاکر آباد کیا جائے۔ اس منصوبے اور سازش کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ وہاں پر اب تک دولاکھ سے زائد ایسے مکانات تعمیر کیے جاچکے ہیں جہاں غیر کشمیری آکر آباد ہورہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان افراد کو پرکشش ترغیبات دی جارہی ہیں اور اس کا ایک جواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ یہ لوگ 1947ء میں وادی سے نقل مکانی کرگئے تھے اور اب وہ واپس آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہزاروں کی تعداد میں ریاستی ڈومیسائل جاری کیے گئے ہیں جن کی قانونی حیثیت کو کشمیری حریت پسند قیادت قبول نہیں کرتی۔ واقفان حال کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس غیرقانونی اور امن دشمن منصوبے کا راستہ دکھانے والی اسرائیل کی حکومت ہے جس نے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے دور رکھنے اور فلسطین کی سرزمین پر اپنے قدم جمانے کے لیے ایسا ہی طریقہ اور حربہ استعمال کیا تھا۔ آزادکشمیر کے صدر مسعود خان کے مطابق ’’مقبوضہ کشمیر کی ایڈمنسٹریٹو کونسل نے اس تجویز کی منظوری دی ہے کہ کنٹرول آف بلڈنگ آپریشن ایکٹ 1988ء اور ڈویلپمنٹ ایکٹ 1970ء میں ترمیم کی جائے تاکہ بھارتی فوجیوں کو جو علاقے درکار ہوں ان کو ’’تزویراتی علاقہ‘‘ قرار دے کر اس کا قبضہ بھارتی فوجیوں کو دے دیا جائے۔ کٹھ پتلی انتظامیہ پہلے ہی 243 ہیکٹر کا رقبہ بھارتی فوج کے حوالے کرچکی ہے جبکہ ماضی میں 21400 ہیکٹر کا وسیع رقبہ تزویراتی قرار دے کر بھارتی فوج کے حوالے کیا گیا۔ اس نئے ضابطے کے تحت وادی کے عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کو اب جبری نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے‘‘۔
وادی کے مظلوم عوام کا وادی سے باہر کی دنیا سے عملی طور پر کوئی رابطہ نہیں ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں 9لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں۔ نہتے اور مظلوم ومحصور عوام پر جدید اسلحہ اور انسانیت سوز ہتھکنڈوں سے ظلم وجبر کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ درندہ صفت نو لاکھ فوجیوں کو بھارتی حکومت نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جیسا چاہیں عوام کے خلاف رویہ اختیار کریں کسی قانون وضابطہ کی کوئی پروا نہ کریں۔
بھارتی حکومت کے ایسے غیرقانونی اقدامات اور سفاکانہ مظالم کے خلاف گزشتہ دنوں امریکی کانگریس کے اجلاس میں بھی ایک توانا آواز سماعت کی گئی۔ ایوان نمائندگان کے کانگریسی رکن آسٹیوو اٹکنڑ نے مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس 5اگست کے جاری لاک ڈائون میں بین الاقوامی میڈیا کی عدم رسائی، انٹرنیٹ و موبائل سروس کی بندش، کورونا وائرس کے میڈیکل سامان کی عدم فراہمی سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر نئی دہلی کے حکمرانوں کی شدید مذمت کی۔ اس سے پہلے بھی کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے امریکی اور برطانوی پارلیمانوں سمیت دنیا بھر کے دانشوروں اور امن پسند حلقوں کا احتجاج سامنے آتا رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہٹلر کے فسطائی فلسفے کی پیروکار مسلح تنظیم، راشٹریہ سیوک سنگھ کے سیاسی ونگ یعنی بھارتیا جنتا پارٹی کے وزیراعظم نریندرا مودی کی انتہا پسندانہ اور جارحانہ پالیسیوں نے بھارت کے علاقے کا تھانیدار بننے اور پڑوسی ممالک پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے پہلے سے موجود عزائم کو اب زیادہ بے نقاب کردیا ہے۔ صورتحال کا ایک رخ یہ ہے کہ 24جولائی کو کشمیری عوام نے حریت کانفرنس کی اپیل پر ریاستی آبادی کا توازن تبدیل کرنے کے بھارتی ہتھکنڈے خلاف شدید احتجاج کیا۔ یہ حقیقت کسی ثبوت کی محتاج نہیں رہی کہ بھارت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ اب چین، نیپال اور بنگلا دیش کے ساتھ بھی غیر دوستانہ رویہ اختیار کررکھا ہے جو بنیادی طور پر ’’ہندوتوا‘‘ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام حسب روایت اپنے مظلوم اور محصور کشمیری بھائیوں کی حمایت میں سرگرم ہیں۔ خاص کر وزیراعظم عمران خان نے ا قوام متحدہ کے گزشتہ دو اجلاسوں میں جس شدت سے کشمیر کے مسئلے اور مضمرات بارے عالمی برادری کو آگاہ کیا اس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔ عمران خان نے جنرل اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکرکہا کہ آج سے میں کشمیریوں کا وکیل ہوں جس کا عملی ثبوت بھی وہ ہر روز دے رہے ہیں۔ مودی سرکار وزیراعظم عمران خان کے کشمیر بارے مضبوط اور اٹل موقف سے اب اس قدر خائف ہے کہ ہر لمحہ اُن کی حکومت کے خلاف سازشوں میں لگی ہوئی ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں آزادکشمیر کے صدر مسعود خان سمیت کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اس موقع پر آزادکشمیر کے صدر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت علاقے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے اپنے ہمسایوں کے ساتھ غیردوستانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ مسعود خان کے اس بیان کو بیش تر تجزیہ کار اس تناظر میں بے حد اہم اور فکر انگیز قرار دیتے ہیں کہ مسعود خان ایک زیرک، تجربہ کار اور منجھے ہوئے سفارت کار ہیں۔ انہوں نے اپنے اس بیان کی بنیاد اس حقیقت پر رکھی ہے کہ بھارت کے وزیراعظم، ان کے وزیردفاع اور فوج کے سربراہ سمیت دیگر ارباب بست و کشاد ایسے بے شمار بیانات جاری کرچکے ہیں جن کا خلاصہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ بیانات یوں بھی نظرانداز نہیں کیے جاسکتے کہ بھارتی وزیراعظم نے بلوچستان اور شمالی علاقہ جات میں مداخلت کا کسی نہ کسی انداز میں اعتراف بھی کیا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اسی ضمن میں ایک ایسا ثبوت ہے جس کو بھارتی قیادت نظرانداز نہیں کرسکتی۔
ان حقائق کی روشنی میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم اور محصور عوام کا مقابلہ اس ’’ہندوتوا‘‘ ذہنیت سے آن پڑا ہے جو کسی قانون، اخلاقیات اور تہذیبی روایات کو خاطر میں لانے کی عادی نہیں بلکہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم اور علاقے میں بالادستی قائم کرنے کے لیے جائز اور ناجائز کے درمیان تمیز کرنے سے بھی عاری ہوگئی ہے اس کے باوجود تاریخ کا یہ درس اور سبق پیش نظر رہے کہ ’’ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘‘۔ یہی وہ حوصلہ اور امید ہے جو مظلوم کشمیری عوام کے لیے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے۔