امریکا بھارت سیٹلائٹ معاہدہ ، پاکستان کے لیے سنگین خطرہ

74

 

واشنگٹن (تجزیہ: مسعودابدالی)امریکا و بھارت میں خلائی و دفاعی تعاون، 27اکتوبر کو امریکا اور بھارت نے ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے جسے دونوں ملکوں نے تاریخی قراردیا ہے۔ معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ معاہدے پر دستخط کے لیے کورونا کے باوجود امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیردفاع مارک ایسپر بنفس نفیس بھارت تشریف لائے۔ اس عہد کو Basic Exchange and Cooperation Agreement for Geo-Spatial Cooperationیا بیکا BECAکا نام دیا گیا ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے معاہدے کے تحت دونوں ممالک دفاع سے متعلق ضروری معلومات کا غیر مشروط تبادلہ کرینگے جس میں سیارچوں Satellite سے حاصل ہونے والی معلومات بھی شامل ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں کہ ریکارڈ کی ہوئی معلومات ایک دوسرے کے علم میں لائی جائینگی یا
معلومات کا تبادلہ براہ راست (live) ہوگا۔ بھارتی وزرات دفاع کا کہنا ہے کہ تبادلہ براہ راست ہوگا جس کی بناپر بھارت کو بحر ہند، خلیج بنگال سے آبنائے ملاکا تک اور بحر عرب کی حدود میں محوِسفر سمندری جہازوں اور فضا میں اڑتے طیاروں کی نقل وحرکت کا نہ صرف ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوگا بلکہ علاقے میں داغے جانیوالے راکٹ و میزائل اور ڈرونز کی معلومات بھی بروقت میسر ہونگی اور ضرورت پڑنے پر انہیں تباہ و ناکارہ کرنا بھارت کے لیے انتہائی آسان ہوجائیگا۔ بظاہر بیکا چین کے گھیراؤ کو مؤثر بنانے کی کوشش ہے۔ اس ضمن میں علاقے کی جغرافیہ پر چند سطور (نقشہ)۔ چین کے لیے بحرجنوبی چین (South China Sea)سے بحرہند میں آنے کا آسان و تیز رفتار راستہ آبنائے ملاکا (Strait of Malacca)سے گزرتا ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے بیچ واقع یہ آبنائے ساڑھے پانچ سو میل لمبی اور اسکی کم سے کم چوڑائی 1.7میل ہے۔ بحر جنوبی چین سے بحر ہند آنے کے لیے جنوب میں آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے درمیان سے بھی جہاز رانی ہوسکتی ہے لیکن بحر ہند جانے کا یہ پیچ در پیچ راستہ کٹھن اور طویل ہے۔ امریکی حکام کے مطابق آبنائے ملاکا کے شمال مغربی دہانے پر نظر رکھنے کی ذمے داری ہندناو سنیا (بھارت بحریہ) کو سونپی گئی ہے۔اس مقصد کے لیے بھارت نے خلیج بنگال میں اڈے قائم کر رکھے ہیں اوربحر انڈمان میں اس کے جہاز اور آبدوزیں گشت کررہی ہیں۔ اس معاملے پر آبی حدود کے حوالے سے دہلی اور ڈھاکا کے درمیان اختلاقات بھی جنم لے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کو شکوہ ہے کہ بھارتی بحریہ اسکی حدود میں بلااجازت مٹر گشتی کرنے سے باز نہیں آتی۔ بیکا معاہدہ بظاہر خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ نظر آرہا ہے لیکن اس پر پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی تشویش ہے۔ ڈھاکا کی فکر تو اس کے چین سے تعلقات کی بنا پر ہے کہ بنگلہ دیش امریکا و چین اور بھارت وچین جھگڑے سے خود کو دور بلکہ بہت دور رکھنا چاہتا ہے۔ چین کے جہاز چاٹگام کی بندرگاہ کو ایندھن بھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مہمان جہازوں کی بھارت کے ہاتھوں جاسوسی بنگلہ دیش کو گوارا نہیںچین کے گھیراؤ میں بھارت کے علاوہ جاپان اور آسٹریلیا بھی امریکا کے حلیف ہیں لیکن واشنگٹن کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اس معاملے میں سردمہری کا مظاہرہ کررہا ہے اور آسٹریلیا کو اس طرف مائل کرنے کی ذمے داری دہلی کو سونپی گئی ہے۔ امریکا اس معاملے میں خاصہ پرجوش ہے اور بھارت روانگی سے پہلے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے مائیک پومپیو نے اپنے دورے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ملاقاتوں کا مقصد چینی کمیونسٹ پارٹی کے توسیع پسندانہ عزائم سے نبٹنے کے لیے ایک لائحہ عمل پر جمہوری ریاستوں سے مشاورت ہے۔ کہا جارہا ہے بھارت سے واپسی پر امریکی وزیرخارجہ سری لنکا، مالدیپ اور انڈونیشیا بھی جائینگے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا بیکا پر بنگلہ دیش کی پریشانی سیاسی، اخلاقی اور ضمنی نوعیت کی ہے لیکن اسلام آباد کے تحفظات منطقی بلکہ حقیقی ہیں۔ Geo-Spatial ٹیکنالوجی کے نتیجے میں پاکستان کے چپے چپے اور اس کے سمندروں پر بھارت نظر رکھ سکے گا۔ ڈرونز، میزائل اورطیاروں کی نقل و حرکت اور ان کے راستوں کی پوری معلومات بھارت کے پاس ہونگی۔ صرف فضا ہی نہیں بلکہ زمین پر ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور پیادہ دستوں کے ساتھ بحر عرب میں پاکستان بحریہ کے جہازوں اور تنصیبات کی پوزیشن بھارت کے علم میں ہوگی اور ضرورت پڑنے پر طیاروں، میزائلوں ، مسلح ڈرونز، ٹینکوں، بحری جہازوں اور بری فوج کے مورچوں کو بھی نشانہ بنایا جاسکے گا۔ خیال ہے کہ اگلے ماہ بحر ہند اور بحر عرب میں جو فوجی مشقیں ہورہی ہیں ان میں Geo-Spatialٹیکنالوجی کی ابتدائی جانچ کی جائیگی۔ مالابار بحری مشق کے عنوان سے اس جنگی کھیل میں امریکا و بھارت کے علاوہ آسٹریلیا اور جاپان کی شرکت بھی متوقع ہے۔ بحر ہند و بحرالکاہل کو چینی ’’تسلط ‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لیے ان ملکوں نے چار کا ٹولا یا Quad گروپ تشکیل دیاہے۔ دیکھنا ہے کہ اس خطرے کے سدباب کے لیے پاکستان کیاقدم اٹھاتا ہے کہ اب ملک کی سلامتی خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے۔