حکمت یار تعلقات کی پرانی راہوں پر

316

افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار اسلام آباد کی ان پرانی راہوں سے گزر رہے تھے جہاں آج بھی انہیں آواز دینے والے بے شمار پاکستانی موجود ہیں۔ وہ آج بھی ایک نسل کے لیے مانوس ہیں اور اپنے دوسرے ہم عصر جہادی کمانڈروں کی طرح تیزی سے اجنبی اور غیرمانوس نہیں ہوئے گوکہ انہیں حالات کے منظر سے غائب ہوئے اتنا وقت گزر چکا ہے جب ایک نسل سن شعور کو پہنچتی ہے اس کے باوجود سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے جہادی کمانڈروں میں حکمت یار اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ افغانستان کے بعد انہیں اب بھی پاکستان میں وہی پزیرائی حاصل ہے جو ماضی کا خاصہ تھی۔ اس کی ایک وجہ تو پاکستان میں منظم دینی جماعت جماعت اسلامی کے ساتھ ان کا نظریاتی تعلق ہے اس تعلق نے اسی کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی جیسی جامعات کے دروازے بھی ان پر کھولے رکھے جہاں قدم رکھنا پاکستان کے بڑے سیاست دانوں کا ایک ایسا خواب رہا جو کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ حکمت یار بلاشبہ ان جہادی کمانڈروں میں سر فہرست یا شاید واحد شخصیت ہوں گے جنہوں نے اپنے پاکستان میں قیام کے دنوں میں ’’تیرا یار میرا یار حکمت یار یار‘‘ کے نعروں اور پاکستان کی نوجوان نسل میں اپنی اس مقبولیت کو جم کر انجوائے بھی کیا۔ حکمت یار نے مہاجرت کے ان ایام میں ان شیریں یادوں کے ساتھ ساتھ تلخیوں کا ایک ذخیرہ بھی بچا رکھا ہوگا۔ گل بدین حکمت یار افغانستان کی سب سے بڑے اور منظم جہادی گروپ حزب اسلامی کے سربراہ ہیں اور ان کا جنگی کردار کابل یونیورسٹی سے ستر کی دہائی میں شروع ہوتا ہے جب وہ کابل یونیورسٹی میں دائیں بازو کے اساتذہ کے زیر اثر آئے اور پھر اس راستے میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر جو چند افغان اپنے ملک پر سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ جیسے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان آئے حکمت یار ان میں سر فہرست تھے۔ حکمت یار نے اصل شہرت پاکستان دوست افغان کی حیثیت سے حاصل کی مگر ان کی پاکستان دوستی کا تصور برادرانہ برابری کے گرد گھومتا رہا۔ اس میں اپنی شناخت اور انفرادیت پر کسی سمجھوتے کا شائبہ موجود نہیں رہا۔ انہوں نے ایک جلسے میں اعلان کیا تھا کہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہوگی۔ حکمت یار کے اس جملے پر ناک بھوں چڑھانے والے موجود تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حکمت یار افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ شاید بعض افغانوں کی ناراضی کی طرح بہت سے پاکستانیوں کے لیے اس جملے میں خوشی کا یہ پہلو رہا ہو مگر عجیب اور دل خراش اتفاق دیکھیے کہ جب گل بدین حکمت یار اسلام آبا د میں تھے تو افغانستان کے شہر جلال آباد میں ایک اسٹیڈیم افغان مردوزن سے بھرا ہوا تھا۔ اسٹیڈیم کی تصویریں بتاتی ہیں کہ تاحد نگاہ ہزاروں افراد کا بے تاب ہجوم ہے۔ اگر یہ کسی سیاسی جماعت کا جلسہ ہوتا تو اسے انتخابی
کامیابی کی ضمانت کہا جا سکتا تھا اور اگر کسی جنازہ گاہ کا منظر تو یہ اس شخص کی مقبولیت اور برگزیدہ شخصیت ہونے کا اعلان ہوتا مگر یہ وہ لوگ تھے جو ہاتھوں میں نیلا پاسپورٹ تھامے پاکستان کے ویزے کے متمنی اور متلاشی تھے۔ جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے کو پاکستان آنے کے خواہش مندوں کی اتنی درخواستیں موصول ہوئیں کہ ان کی جانچ پڑتال عام عمارت میں ہونا ناممکن رہا اور قونصل خانے نے ضابطے کی کارروائی کے لیے ایک وسیع وعریض اسٹیڈیم کا انتخاب کیا۔ اس کے باوجود ہجوم اس قدر زیادہ تھا کہ بھگدڑ مچنے سے بارہ خواتین پیروں تلے آکر کچلی گئیں اور یوں ان کی پاکستان آنے کی حسرت ناتمام رہی۔ مالی استعداد نہ رکھنے والے افغان جنگی ماحول سے تنگ آئیں تو یورپ کی سیر وسیاحت کے بجائے پاکستان چلے آتے ہیں۔ بیمار ہوجائیں تو پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔ عزیر اقارب کی یاد ستائے تو پاکستان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ آسان کاروبار کا راستہ اختیار کریں تو پاکستان کی منڈیوں کی طرف دوڑتے ہیں۔ اب تو چالیس سالہ تعلق نے دونوں طرف کے عوام کو رشتوں ناتوں میں بھی باندھ دیا ہے۔ اس انداز کا تعلق باڑھ بندی، دیوار بندی، ناکہ بندی، چیک پوسٹوں اور ویزے کی پابندیوں سے ماورا ہوتا تو اس کا اپنا مزہ تھا۔
ہمارے ایک مرحوم سینئر اخبار نویس دوست ستر کی دہائی میں کابل سینما میں بالی ووڈ کی فلم مغل اعظم دیکھنے کے لیے اختیار کردہ سفرِ کابل کی کہانی سناتے تو لمحہ بھر کو ایک خواب اور افسانہ لگتا کیونکہ ہم نے جس ماحول میں آنکھ
کھولی سوویت فوجیں افغانستان کی دہلیز پار کر رہی تھیں اس لیے ایک پاکستانی کا اس طرح آزادانہ اور معمول کے اندازمیں کابل جانا قطعی عجیب سی بات معلوم ہوتی تھی۔ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آج افغان ترس ترس کر پاکستان کا ویزہ حاصل کرتے ہیں اور پاکستانیوں کے لیے افغانستان ایک جادو نگری بن گیا ہے۔ باڑھ بلند ہو رہی ہے، حفاظتی چوکیاں تعمیر ہورہی ہیں، ویزے کی پابندیاں سخت ہو رہی ہیں اور گاہے گاہے پاکستان کی فورسز پر افغان علاقوں سے یوں گولیاں برسائی جاتی ہیں کہ لمحہ بھر کو یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ڈیورنڈ لائن ہے یا کنٹرول لائن۔ پاکستان اور افغانستان کو اس حال تک پہنچانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے افغانستان میں پاکستان کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کو پنجاب کی توسیع پسندانہ سوچ اور بھارت کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کو دوستی کا ایک رنگ اور پیار کا ایک انداز کہہ کر سینے سے لگایا۔ اسی سوچ نے دونوں ملکوں کو اس حد تک بدگمان کیا اب وہ باڑھ اور حصاروں کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔ افغانستان کی بارہ خواتین کی قاتل حقیقت میں یہی سوچ ہے۔ ان شہید خواتین کے لواحقین کو اس سوچ سے اپنے لہو کا حساب اور خوں بہا طلب کرنا چاہیے۔ اکہتر سالہ حکمت یار ایک بار پھر حالات کے منظر پر بروئے کار آئیں یا نہ آئیں ان کی سوچ وقت کے ماتھے پر آج بھی کندہ ہے اور یہی پاکستان اور افغانستان کی ضرورت بھی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا اور کینیڈا کھلی سرحدوں کے ساتھ اپنا تشخص اور شناخت برقرار رکھ سکتے ہیں تو پاکستان اور افغانستان میں تو ان سے زیادہ مشترکات ہیں مگر شاید یہ ٹرین مس ہو چکی ہے اور اگلی ٹرین کب آئے کون جانتا ہے؟۔ پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد۔