نبو ی ؐ تعلیم و تعلم

96

محمد رسول اللہ ؐ چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں جب گھٹا ٹوپ اندھیری رات تھی، گمراہیوں اور ظلم و ستم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھی تب یہ آفتاب نبوت طلو ع ہوا۔ آپؐ کی بعثت ایسے معاشرہ میں ہوئی کہ دولت پر غرور، جاگیرو جائداد پُرگھمنڈ نسلی اور خاندانی اونچ نیچ، اپنے آپ کو اونچا اور دوسروں کو نیچا جاننا، غریب پسے لوگوں سے چھوت چھات کا معاملہ کرنا، غریب مسکین کو دبانا، کمزوروں کی کمزوریوں کی بنیاد پر استیصال کرنا، عورتوں کو محض خدمت گزار جاننا، شوہروں کی موت کے بعد ان کی زندگی کو اکارت ماننا، یہاں تک کہ ان کی خود کشی کو ان کے لیے ذریعہ نجات سمجھنا، ایک خدا سے انکار اور سیکڑوں ہزاروں دیوی دیوتاؤں کے سامنے ماتھا رگڑنا، من مانی باتوں کو مذہب سمجھ لینا خود غرضی، بے رحمی، سود، زنا، شراب اور جوا وغیرہ ایسی بیماریاں تھیں جن کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ عرب کی معاشرت ان عام بیماریوں کے ساتھ بیمار معاشرت تھی۔ پھر یہ بھی خطرناک بیماری لاحق تھی کہ باقاعدہ کوئی حکومت نہیں تھی، ہر قبیلہ اپنی جگہ آزاد تھا، دوسرے قبیلہ کو ناپاک، غیر اور مقابل جاننا، انسانی خون سستا اور ہلکا سمجھنا ان کا قومی مزاج بن گیا تھا۔ اسی تناظر میں شخصی لڑائی کو قومی اور فرقہ وارانہ لڑائی بنا لینے کا بدترین مرض ہمارے زمانہ میں خود ہمارے اپنے ملک و معاشرہ میں موجود ہے۔ فرق یہ ہے کہ یہاں مذہب کا نام دے دیا جاتا ہے اور وہاں قبائیلی عصبیت کام کیا کرتی تھی جس عصبیت کو اسلام نے جاہلیت قرار دیا ہے یہاں یہ عصبیتِ جاہلیت مذہب کے مقدس نام پر ہے۔
اس دور کے علاج کے لیے ایک بہت بڑے سماجی انقلاب کی ضرورت تھی۔ سیدنا محمدؐ نے جیسے ہی بیدار مغز صالح جوان کی حیثیت سے انسانی معاشرہ میں قدم جمایا، ہر مرحلہ پر آپؐ میں خالق حقیقی پرودگار کی عبادت و پرستش کا شوق بڑھا، قوم کی ابتر حالت بھی آپؐ کے دل کا درد اور جگر کا سوز بن گئی یہ درد وسوز آپؐ کو ہر وقت بے چین اور مضطرب رکھتا کوئی معمولی نسخہ شفاء اس درد کے لیے کارگر نہیں تھا۔ اسی لیے آپؐ کی حیات طیبہ مسلسل جدوجہد اللہ کے بندوں کی زندگیوں کو بدل دینے کی سعی کا عنوان ہے۔ آپؐ نے اپنے اخلاق، کردار اور اعمال کے ساتھ انسانوں کے دلوں کی سطح ہموار کی، آپؐ نے عامۃ الناس کی تربیت و اصلاح کے لیے ایک تنظیم (انجمن) بنائی جس کے ارکان کا یہ عہد ہوتا تھا۔
۱۔ ہم اپنے وطن سے بے امنی دور کریں گے۔
۲۔ غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔
۳۔ مسافروں کی حفاظت کریں گے۔
۴۔ طاقت ورکو کمزور پر، بڑوں کو چھوٹوں پر ظلم کرنے اور ناانصافی سے روکیں گے۔
اصلاح کا یہ اتنا بڑا چارٹر (عہد) تھا کہ جس پر عمل کے لیے دلوں کی دنیا بدلنے، دلوں کی سطح کی ناہمواری کے خاتمہ کی ضرورت تھی اسی لیے ظلم کے معاشرہ میں انسانیت کو محسن، صادق وامین اور رحمت العالمین کی ضرورت تھی۔ آپؐ کی بعثت سے اصلاح اور انقلاب کا راستہ کھل گیا۔ اسی لیے قرآن کریم میں اللہ کریم نے اعلان کر دیا
’’ترجمہ: اے نبی ؐ بے شک ہم نے آپ کو اس شان کا رسول بناکر بھیجا کہ آپ گواہ رہیں اور آپ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں۔ (3:22)
لوگو جان لو نبی ؐکی عزت و حرمت، توقیر و تعظیم وفات کے بعد ایسی ہی لازم ہے جیسے ان کی حیات مبارکہ میں تھی اور یہ آپؐ کی حدیث، سنت، اسم مبارک، سیرت کا ذکر کرتے وقت اور آپؐ کی آل و عترت واہل بیت وصحابہ کے ساتھ معاملہ کرنے میں واجب ہے۔ ہر مومن پر جب بھی ان کا ذکر کرے یا سنے وہاں عاجزی کرے، ڈرے اور عزت کرے۔ نبی مہربان ؐ نے انسانی زندگی، انسانی فطرت کی ضروریات کے پیش نظر انسانوں کی رہنمائی کی اور جو لوگ دائرہ اسلام میں آگئے ان کی فکری، کردار سازی اور اندر کے انسان کو بدل دینے کی مسلسل سعی کی، اور اس میں آپؐ کامیاب رہے۔ آپؐ انسانِ کامل تھے اور اپنی امت کے لیے یہی معیار دیا اور اصولی بنیادیں فراہم کر دیں۔
سیرت خاتم الانبیاء کے مطالعہ سے بنیادی رہنمائی کے وہ چند پہلو جو بندہ مومن کی زندگی کو کامیاب، اللہ کے ہاں قبولیت سے آخرت کی نجات اور رسول اللہ ؐ کی شفاعت کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ مومن کی صفات کیا ہیں اور کیا ہونی چاہئیں؟ بندہ مومن کے لیے اخلاق حسنہ کیا ہیں؟ اہل ایمان کو باہمی تعلقات کی کشیدگی سے بچاؤ اور مثالی تعلقات کی کیا رہنمائی دی ہے۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ رہنمائی، آگہی اور ذہن نشین کرنے اور عمل میں ڈھالنے اور پلے باندھنے والی چند تاکید و تذکیر کی تصویریں پیش خدمت ہیں۔
رسول اللہؐ کی تعلیمات احادیث مبارکہ سے روشنی ملتی ہے کہ مومن کی صفات کچھ یوں ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ مومن کی عادت نہیں کہ لعن و طعن کرے، فحش گوئی یا بیہودگی اختیار کرے۔ آپ ؐ کا فرمان ہے کہ جو کوئی کسی شخص کو کسی ایسے گناہ پر طعنے دے جس سے اس نے توبہ کر لی ہو ایسا شخص مرنے سے پہلے وہ کام ضرور کرے گا یعنی اس گناہ میں آلودہ ہو گا۔ آپ ؐ سے سوال کیا گیا کیا مومن بزدل ہوتا ہے فرمایا ہاں! پھر سوال ہوا کیا مومن بخیل ہوتا ہے فرمایا ہاں! سوال ہوا کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے نبی مہربانؐ نے فرمایا مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ خاتم النبین نے فرمایا کہ مجھے اس طرح نہ بڑھانا جس طرح نصاریٰ نے سیدنا مسیح کو بڑھایا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں بس میرے حق میں تم یہی کہا کرو کہ آپؐ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا ماں باپ کو گالی دینا بہت بڑا گناہ ہے، صحابہ ؓ نے سوال کیا، حضور کوئی اپنے ماں باپ کو کوئی گالی دیتا ہے؟ فرمایا ہاں جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالی دے گا وہ جواب میں اس کے ماں باپ کو گالی دے گا تو یہ گالی اس نے اپنے ماں باپ کو دی۔ مومن کی تربیت کے لیے نبی آخر الزمانؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے ماؤں کی نافرمانی کرنا، لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینا، اپنا مال روکنا اور لوگوں سے مانگنا، ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہنا اور کثرت سے سوال کرنا اور مال ضائع کرنا بھی خدا کو ناپسند ہے۔ (مسلم، ترمذی)
ختم المرسلین ؐ کی تعلیم وتربیت نے صحابہ کرامؓ کو جس مسلسل اور کٹھن نظام تربیت سے گزارا انہیں دیکھیں اخلاق حسنہ کے نقش تلاش کریں تو رہنمائی ملتی ہے کہ محسن انسانیت نے فرمایا کہ مسلمانوں کے شایان شان نہیں کہ طعن کریں، غیبت کریں، تجسّس اور حسد میں پڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فحش کام کرنے والے اور فحش گو سے محبت نہیں رکھتا جو بازاروں میں چلاتا پھرتا ہے، مؤمن کی یہ شان نہیں کہ وہ لعن طعن کرے، تم ایک دوسرے سے یہ نہ کہو کہ تجھ پر خدا کی لعنت ہو یا اللہ کا غضب ہو یا دوزخ میں جائے، آپؐ نے فرمایا کہ میں لوگوں کو دھت کارنے، لعن طعن کرنے نہیں بلکہ رحم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ قرآن اعلان کرر ہا ہے کہ آپؐ رحمت العالمین ہیں۔ مسلمان کو گالی دینا فسق اور بلا جواز جنگ کرنا کفر ہے۔
فخر عالمؐ، سرور دو عالمؐ کے یہ ارشادات ہر جگہ عامۃ الناس تک پہنچا دینا ہر عالم، ہر صاحب ایمان کا کام ہے۔ دوسروں کی تربیت اور اصلاح کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کی جائے۔ اہل ایمان کے درمیان دنگا فساد گالی دینے والے کا جواب گالی سے دنیا شرعاً جائز نہیں ہے۔ سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے زمانہ میں دو آدمیوں میں گالی گلوچ ہوئی جب تک ایک گالی دیتا رہا دوسرا خاموش رہا۔ رسول اللہ ؐ تشریف فرما رہے اور جب دوسرے نے جواب دیا تو رسول اللہ ؐ وہاں سے کھڑے ہو گئے رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ فرشتے کھڑے ہو گئے تو میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا جب تک یہ خاموش تھا فرشتے اس کی طرف سے گالی دینے والے کا جواب دیتے تھے جب اس نے خود جواب دیا تو فرشتے اٹھ گئے (ادب المفرد)
فرمان رسول اللہ ؐ ہے کہ: ’’اے کہ وہ جو کچھ جبڑوں کے درمیان اور ٹانگوں کے مابین ہے اس کی حفاظت کرے گا میں اس کو جنت دلانے کا وعدہ کرتا ہوں (بخاری) آپؐ نے فرمایا مومن میں تمام خصائل پیدا ہو سکتے ہیں سوائے خیانت اور جھوٹ کے، فرمایا کہ چھ چیزوں کی تم ضمانت دو میں تمہارے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ۱۔ جب کوئی بات کرو سچ بولو۔ ۲۔ جب کوئی وعدہ کرو پورا کرو۔ ۳۔ اپنی شرم گاہوں کی حفاطت کرو۔ ۴۔ امانتوں کی حفاظت کرو۔ ۵۔ اور اپنی آنکھیں نیچی رکھو۔ ۶۔ ہاتھوں کو روکو (مشکوٰۃ)
آپؐ نے بندہ ٔ مومن کی تعلیم و عمل کے لیے رہنمائی فرمائی کہ جس میں امانت نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کا عہد مضبوط نہیں اس کا دین نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدؐ کی جان ہے کسی شخص کا دین ٹھیک نہیں ہوتا جب تک اس کی زبان ٹھیک نہ ہو اور زبان ٹھیک نہیں ہوتی جب تکہ اس کا دل ٹھیک نہیں ہوتا۔ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا ہمسایہ اس کے شر (بوائق) سے محفوظ نہ ہو لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ ؐ بوائق کیا ہے فرمایا اس کو دھوکا دینا اور اس پر ظلم کرنا۔
رسول اللہؐ نے امت کے لیے قیامت تک کی رہنمائی دے دی کہ میری امت میں تیس جھوٹے ہوں گے ہر ایک اپنے آپ کو نبی سمجھے گا حالانکہ میں خاتم النبینؐ ہوں میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں ہے (بخاری، مسلم، ترمذی) اس حدیث مباکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہؐ کے بعد اُمت میں جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوں گے یہ کہ ان کے جھوٹے ہونے کی یہ علامت بیان فرمائی کہ اُمت محمدیؐ میں سے ہونے کا دعویٰ کریں گے اور اپنے آپ کو امتی کہہ کر نبوت کے مدعی ہوںگے یعنی اپنے آپ کو امتی نبی کہیں گے آپؐ نے ان کے جھوٹے ہونے کی یہ دلیل فرمائی وانا خاتم النبین یعنی وہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں گے حالانکہ میں خاتم النبین ہوں یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ میرا خاتم النبیین ہونا ان کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے نہایت صراحت کے ساتھ یہ ثابت ہوا کہ لفظ خاتم النبیین کے معنی آخر نبی کے ہیں۔ نبی مہربانؐ نے فرمایا میرا نام عاقب ہے اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا۔ فرمایا میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا اور میر ی مسجد نبیوں کی مسجد کو ختم کرنے والی ہے۔ فرمایا کہ میں آخری نبی ہوں، خاتم الانبیاء ہوں اور تم خاتم الامم ہو۔ (بخاری مسلم، ابن ماجہ، رواہ احمد، کنزالعمال، ابن کثیر)
اہل ایمان کی تعلیم و تربیت کے لیے یہ رہنمائی بے پناہ اہمیت کی حامل ہے،آپ نے فرمایا ’’میرے اصحابؓ کو برا نہ کہو، انہیں سب و شتم سے یاد نہ کرو، اگر کوئی تم میں سے کوہ احد کے برابر سونا خرچ کرے تو ان کے ایک مد اور نصف مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ سیدنا جابر ؓ سے فرماتے ہیں کہ ’’ہم سے رسول اللہ ؐ نے حدیبیہ کے دن فرمایا کہ تم تمام اہل زمین سے بہتر ہو اور ہم اس وقت چودہ سو تھے (بخاری، مسلم) تمام صحابہؓ سے اصحاب شجرہ یعنی بیت رضوان میں شامل ہونے والے افضل ہیں اور ان میں سے اصحاب بدر کا مرتبہ سب سے فائق ہے جن کی تعداد 313تھی، ان میں سے دس صحابہ کرام ؓ سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح، سعید ابن زید رضوان اللہ علیہم اجمعین عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں ان کو دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی۔
رسول اللہ ؐ نے انسانی معاشرہ خصوصاً اہل ایمان اپنے امتیوں کی تعلیم وتربیت میں رہنمائی فرما دی کہ ایک شخص نے عرض کیا حضورؐ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے فرمایا تمہاری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیا پھر کون؟ فرمایا تمہاری ماں، عرض کیاپھر کون؟ فرمایا تمہارا باپ (متفق علیہ) خاتم النبیینؐ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو بڑے بڑے تین گناہ نہ بتاؤں صحابہ ؓ نے عرض کیا ہاں رسول اللہ ؐ بتایئے، فرمایا اللہ کا شریک بنانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور مکر وفریب کی بات کہنا (الحدیث، ادب مفرد) آپؐ نے فرمایا کہ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس کی ناک خاک آلود ہو اس کی ناک خاک آلود ہو، عرض کیا گیا یارسول اللہ ؐ کس کے لیے، فرمایا اس شخص کے لیے جو اپنے ماں باپ میں سے دونوں کو یا ایک کو بڑھا پے میں پائے اور پھر ان کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم) ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا یارسول اللہ ماں باپ کا حق اولاد پر کیا ہے فرمایا وہ دونوں تمہاری جنت اور دوزخ ہیں (ابن ماجہ) تمام گناہوں میں سے اللہ جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا موت سے پہلے زندگی میں ہی دے دی جاتی ہے۔ ایک نوجوان رسول اللہ ؐ سے دریافت کرتا ہے، آپؐ نے فرمایا جو نیک لڑکا اپنے والدین کی طرف محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج لکھتا ہے صحابہ ؓ نے کہا اگرچہ وہ روزانہ سومرتبہ دیکھیے، فرمایا ہاں اللہ بہت بڑا اور نہایت پاک ہے (بیہقی)