ناموس رسالت اور ہماری ذمہ داریاں

797

پورا عالم اسلام کم ازکم مسلمانان عالم تو ناموس رسالت پر فرانسیسی حملے پر دل گرفتہ ہیں۔ رسولوں پر سب و شتم ان کو جادوگر کہنا ان کو قتل کرنا ان کی توہین کی کوشش کرنا یہ سب کام کفار کے پرانے حربے ہیں اور ایسا ہوتا رہا ہے۔ جب تک انبیاء دُنیا میں آتے رہے اللہ کا نظام ان کی عصمت اور ان کی حفاظت میں بروئے کار آتا رہا۔ اللہ کا غضب پوری قوم کو تباہ کرنے کا سبب بھی بنا اور صفحہ ہستی سے بھی مٹا دیا گیا اور بہت سوں کو تا قیامت عبرت کا نمونہ بنایا گیا۔ حضور اقدسؐ کے ختم نبوت اور ناموس رسالت کی حفاظت امت دو ہی طرح کر سکتی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمان سنت رسولؐ پر پوری طرح عمل پیرا ہوں اور مسلمان حکمران اپنے اپنے ملکوں میں سنت کے مطابق حکمرانی کریں۔ ہمارے عوام کی اکثریت دلوں میں اپنے نبیؐ سے محبت رکھتی ہے۔ ان کی ناموس کے لیے جاں بھی قربان کرنے کو تیار رہتی ہے اور مسلمان اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی پر جان لے بھی سکتا ہے۔ لیکن اللہ نے اپنے انبیاء کو لوگوں کی جانیں لینے اور اپنی جانیں دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ اس دُنیا میں اپنا دین غالب کرنے کے لیے مبعوث فرمایا تھا خواہ وہ مشرکوں یا کفار کو کتنا ہی ناگوار گزرے اور جب یہ ناگوار گزرتا ہے تو وہ اپنا غصہ نکالنے کے لیے خاکے بناتے ہیں۔ آزادیٔ اظہار کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن ان کا بس نہیں چلتا کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ جدید دور کا المیہ یہ ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمان حکمران مغرب کے غلام یا مغربی ذہنیت سے مرعوب ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں میں مغرب سے درآمد شدہ قوانین مسلط کرتے ہیں۔ اسلام کے فروغ کی تحریکوں کو روکتے ہیں اور اس کے خلاف بات کرتے یا انتشار اور ابہام پھیلانے والوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ دُنیا کے ادارے مغرب کے کنٹرول میں ہیں دُنیا کا نظام ان کے کنٹرول میں ہے۔ اگر کہیں کوئی موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج کے دور میں نام نہاد آزاد، مہذب اور ترقی یافتہ دُنیا نے سب سے زیادہ شیطان کی ذہنی غلام، غیر مہذب اور ذہنی طور پر غیر ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ جدید دور میں مغربی یہودی، ہنود، بدھ، چینی ریاستوں نے اسلام کے خلاف ریاستی سطح پر بھرپور کارروائیاں کی ہیں۔ میڈیا کو دُنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ امریکی اور مغربی حکمرانوں نے مہذب غیر جانبدار اور جمہوریت پسند ہونے کا لبادہ اوڑھ کر سب سے زیادہ حملے کیے۔ یہود اور ہنود کے حملوں کی توقع تو امت مسلمہ کو ہمیشہ رہتی تھی۔ لیکن مغرب کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں امریکا و یورپ میں مساجد پر حملے، داڑھی والوں پر حملے، حجاب والی خواتین پر حملے اور قتل، برقع کو خوف کی علامت قرار دینا، پابندیاں لگانا، قرآن پاک کی توہین وغیرہ سب سے زیادہ کیے گئے۔ اسرائیل میں ایسا ہوتا ہے اور وہ کرتے رہیں گے۔ انبیاء کی توہین، قتل اور ان کو جھٹلانا ان کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے اور ہندوئوں کی جانب سے پورے بھارت میں 25 کروڑ مسلمانوں پر طرح طرح کے عذاب مسلط کیے جاتے ہیں۔ یہ سب لوگ جمہوریت پسند، مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہر اعتبار سے جہالت کے آئینہ دار ہیں۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کیا کرے۔ مسلمان کیا کریں جو کچھ مسلم حکمرانوں کو کرنا تھا وہ تو اس پر رتی بھر عمل نہیں کر رہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے جس طرح توہین انبیاء کرنے والے ہزاروں برس کی تاریخ رکھتے ہیں تو تعمیل انبیاء کرنے والے بھی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔ حضورؐ نے جتنے وفود بھیجے سب کو سلام پھیلانے کا حکم دیا۔ جنگوں کے دوران لڑنے کے آداب بتائے۔ قیدیوں سے سلوک کا طریقہ سکھایا۔ دعوت کا طریقہ سکھایا۔ اگر مسلمان ناموس رسالت کا حقیقی تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے نبیؐ کے سکھائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔ اصل خرابی تو مسلمان ملکوں میں مسلمان حکمرانوں نے پیدا کی ہے یہ لوگ خود اسلام اور اسلامی قوانین کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ آج کل امت مسلمہ کی قیادت کے دعویدار دو ممالک سعودی عرب اور ترکی ہیں۔ ترکی کسی حد تک یہ کردار ادا کر رہا ہے۔ سعودی حکومت اپنے مسائل اور مجبوریوں کا شکار ہے۔ لیکن پاکستان میں عمران خان نے مدینے کی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ریاست انہیں مل گئی قیادت پر وہ فائز ہیں لیکن مدینے کی ریاست کی لاج نہیں رکھ سکے۔ نہ کوئی دستہ ایسے ناہنجار کی بیخ کنی کے لیے روانہ کیا نہ بین الاقوامی سطح پر فرانس کا گھیرائو کیا۔ یہ سب کرنے میں ذہنی مرعوبیت رکاوٹ ہے۔ ہمارے حکمران اس مرعوبیت سے نکلیں تو کچھ کر سکیں گے۔ عمران خان پر تو نواز شریف، اپوزیشن لیڈرز اور پی ڈی ایم سوار ہے۔ آج پوری پاکستانی قوم بھی 12 ربیع الاول شان و شوکت سے منا رہی ہے۔ مختلف تنظیمیں جلسے جلوس کا اہتمام کریں گی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے 12 ربیع الاوال کو یوم تحفظ ناموس رسالت کے طور پر منانے کی اپیل کی۔ اتفاق سے جمعہ کا دن بھی ہے اور علما و خطبا کو موقع نصیب ہوا ہے کہ عوام الناس کی بڑی تعداد کا رجوع مساجد کی طرف ہو گا اس موقع پر مسلمانوں کے سامنے سیرت النبیؐ اور شان مصطفیؐ بیان کی جائے اور مسلمانوں کو سنت پر عمل کرنے پر ابھارا جائے۔ مسلمانان عالم سنت پر عمل کریں گے اور سنت کے نفاذ کے علمبرداروں کو امامت کے منصب پر سرفراز کریں گے تو اسلام اپنی شان و شوکت پر ایک بار پھر حاصل کر سکتا ہے۔ جب دُنیا میں اسلام غالب قوت ہوگا تو یہ توہین رسالت کرنے والے اپنے بلوں میں دبک کر رہ جائیں گے۔ مسلمانوں کی اصل ذمے داری یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا پیغام عام کریں اس کو نافذ کریں اور دُنیا میں پھیلائیں۔ اگر اس راہ میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے تو اسے ہٹا کر مومنین اور صالحین کے ہاتھ میں امامت دے دیں۔ یہ سب کرنے کے لیے دین سے قربت ضروری ہے۔ خود عمل کریں گے تو دوسروں کو اس کی ترغیب دے سکیں گے۔ شان رسالتؐ کے تحفظ کا طریقہ پیغام رسالتؐ پر عمل میں ہے۔