خاکوں کے پیچھے حکومت کا ہاتھ نہیں ، فرانسیسی صدر

75

 

پیرس/اٹاوہ(مانیٹرنگ ڈیسک) فرانس کے صدر ایمانوئل ما کرون نے کہا ہے کہ گستاخانہ خاکوں سے متعلق ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پھیلایا گیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ میں گستاخانہ خاکوں کا حامی ہوں،گستاخانہ خاکے حکومتی منصوبہ نہیں اور نہ اسے سرکاری حمایت حاصل ہے۔الجزیرہ ٹی وی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں فرانسیسی صدر نے کہا وہ گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات کو سمجھتے ہیں تاہم انہیں جاننا ہوگا کہ گستاخانہ خاکے حکومتی منصوبہ نہیں اور
نہ اسے سرکاری حمایت حاصل ہے۔انہوں نے کہاکہ میرے خیال سے اشتعال کی وجہ میرے حوالے سے منسوب جھوٹی باتیں ہیں، گستاخانہ خاکوں سے متعلق میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پھیلایا گیا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے میں اِن گستاخانہ خاکوں کا حامی ہوں۔ماکروں کا کہنا تھا کہ گستاخانہ خاکے نجی صحافتی اداروں نے شائع کیے جو حکومتی اجارہ داری سے آزاد ہیں۔ فرانسیسی صدر کا مزید کہنا تھاکہ کچھ لوگ اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح کرکے، قتل وغارت، تشدد اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر جو چیز پھیلائی جارہی ہے وہ خود مسلمانوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے، دہشت گردی کا خمیازہ بھگتنے والے 80 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔خیال رہے کہ فرانس میں حکومتی سرپرستی میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور پھر اس کے حق میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے بیان کے بعد دنیا بھر میں فرانس کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور مسلم ممالک میں فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سرکاری سرپرستی میں اشاعت کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے والے ملک فرانس کے وزیرداخلہ جیرالڈ درمانین نے ڈھٹائی اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور ترکی فرانس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔دوسری جانب برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق فرانس کے شہر لیون میں نامعلوم حملہ آور نے چرچ کے باہر فائرنگ کرکے ایک پادری کو زخمی کردیا اور موقع سے فرار ہوگیا۔ فرانسیسی حکام کے مطابق پادری کو 2 گولیاں ماری گئیں جب وہ چرچ کو بند کررہا تھا۔ حملہ آور موقع سے فرار ہوگیا ہے جبکہ پادری کو طبی امداد دی جارہی ہے۔ خیال رہے کہ 3 روز قبل فرانس کے شہر نیس میں چرچ کے قریب ایک شخص نے چاقو کے وار کرکے 3 افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا تھا۔ ادھرکینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی سب کا حق ہے لیکن یہ آزادی حد سے باہر نہیں ہونی چاہیے۔کینیڈا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے متنازع فرانسیی جریدے چارلی ہیبڈو کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے سوال پر جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ آزادی اظہار رائے کا دفاع کریں گے مگر اس کی ایک حد ہونی چاہیے، ہمیں دوسروں کے لیے احترام کے ساتھ کام کرناچاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ غیرضروری طورپرلوگوں کی دل آزاری نہ ہو۔ان کاکہنا تھاکہ ہمیں اپنے الفاظ اور افعال کے دوسروں پر اثرات کا علم ہونا چاہیے اور ایسی کوئی بات نہیں کہنی چاہیے جس سے ہمارے ساتھ رہنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور خاص طور پر ایسے افراد جنہیں معاشرے میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان پیچیدہ مسائل پر ذمے داری کے ساتھ بحث کے لیے معاشرہ تیار ہے۔فرانس میں ہونے والے حالیہ حملوں کے حوالے سے کینیڈین وزیراعظم کاکہنا تھاکہ یہ حملے ناجائز اور بلاجواز ہیں اور ان کی بالکل بھی حمایت نہیں کی جاسکتی،کینیڈا کے عوام اس مشکل وقت میں فرانسیسی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔