سیاسی تنائومیں اضافہ

181

پی ڈی ایم کی جانب سے گوجرانوالہ سے حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے آغاز اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والے پہلے احتجاجی جلسے میں اپوزیشن راہنمائوں بالخصوص میاں نواز شریف کی دھواں دھار تقریر اور اس کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کا کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کے کنونشن سے خطاب کے دوران اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کے اعلان کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی ڈرامائی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے سے موجود سیاسی تنائو میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ پی ڈی ایم اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہو سکے گا اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قطع نظر تا دم تحریر اکثر سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا بھان متی کا کنبہ کہلایا جانے والا یہ بھاری بھر کم اتحاد اپنا وجود برقرار بھی رکھ سکے گا یا نہیں کیونکہ اس اتحاد کا اب تک جو سب سے کمزور پہلو سامنے آیا ہے وہ اس اتحاد کی تمام جماعتوں کے درمیان بالعموم اور اس اتحاد کی بڑی جماعتوں کا بالخصوص ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ ماضی کے قضیے ادھیڑے بغیر اگر ان جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف آزمائے جانے والے موجودہ بعض خفیہ اور بعض اعلانیہ دائو پیچ ہی کو مد نظررکھا جائے تو اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس اتحاد کو اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے ابھی ایک طویل اور دشوار گزار سفر سے گزرنا ہو گا۔ اس اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمن جو موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے وقت سے اس کی رخصتی کے علم بردار رہے ہیں کو دینے کے بعد اپوزیشن اب واقعتا do or die کی پوزیشن پر آگئی ہے اور شاید اسی لیے پی ڈی ایم کی قیادت ملک کی دو بڑی جماعتوں کے بجائے مولانا کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہاں پی ڈی ایم کے بعض نقاد یہ سوال تواتر کے ساتھ اٹھا رہے ہیں کہ آیا اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتیں موقع ملنے پر مولانا صاحب کے ساتھ حسب سابق ہاتھ نہیں کریںگی۔ گو اس حوالے سے فی الحال کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے لیکن اگر ان دونوں بڑی جماعتوں کے ماضی اور موجودہ حالات میں ان کے گرد تنگ کیے گئے دائرے کو دیکھا جائے تو ان سے کوئی بھی بات بعید نظر نہیں آتی جس کی طرف وزیر اعظم عمران خان مسلسل اشارہ بھی کررہے ہیں۔ دراصل یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں اسٹیٹس کو کی علامت ہیں اور ان کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے کسی انقلاب کی توقع رکھنا خام خیالی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوگا۔ وزارت عظمیٰ، صدارت اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے مواقع پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں جو تاریخی کردار ادا کیا اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی پرلے درجے کا بے وقوف ہی ان جماعتوں سے کسی انقلابی کردار کی توقع رکھ سکتا ہے۔ یہاں ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر اندار نہیں کرنا چاہیے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے بعض مشترکات کے علاوہ بعض کمزوریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
سول بالادستی اور جمہوریت کی اپنی روح کے مطابق بحالی کے معاملے پر بظاہر تو یہ دونوں جماعتیں ایک صفحے پر ہیں لیکن اگر تھوڑا سا گہرائی میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی تر جیحات اور مجبوریاں مسلم لیگ (ن) سے بعض معاملات میں مختلف نظر آئیںگی مثلاً پیپلز پارٹی کو آصف زرداری سمیت اپنے اکثر مرکزی رہنمائوں کے خلاف نیب کے کیسزکے علاوہ ایک بڑا چیلنج سندھ حکومت کی شکل میں درپیش ہے اسی طرح پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے کسی بھی ممکنہ بارگینگ کے وقت مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں بھی اپنے لیے زیادہ سے زیادہ گنجائش حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جبکہ اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کا معاملہ پیپلز پارٹی سے قدرے مختلف ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ووٹ کو عزت دینے کا جو بیانیہ اپنایا
ہے اس میں ووٹ کو عزت دینے سے زیادہ مسلم لیگ(ن) سے اقتدار چھننے کا غصہ اور نارضی شامل ہے کیونکہ اگر بات واقعتا ووٹ کو عزت دینے کی ہوتی تو اب تک مسلم لیگ (ن) حقیقی معنوں میں ایک عوامی جمہوری جماعت بن چکی ہوتی کیونکہ اگر ایک پارٹی کی اپنی اندرونی صفوں میں ووٹ کو عزت دینے کا رواج نہ ہو تو آپ پھر کس دلیل کی بنیاد پر دوسروں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیںکہ وہ آپ کے مطالبے کو خوشی خوشی بہ سر وچشم تسلیم کرلیںگے۔ مسلم لیگ (ن) کا بھی ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ نیب اور وہاں اس کے زیر سماعت کرپشن کے درجنوں بھاری بھر کم مقدمات ہیں جس نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو شدید دبائو میں رکھا ہوا ہے البتہ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا تعلق ہے انہیں گزشتہ سال کے دھرنے میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا دیا گیا زخم بھرنے کی غرض ہی سے پی ڈی ایم کی سربراہی دی گئی ہے لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لیے انہوں نے پی ڈی ایم کی سربراہی تو قبول کرلی ہے لیکن اپنے ان دو بڑے پارٹنر کے ساتھ ان کی شراکت چونکہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے اس لیے انہیں اچھی طرح معلوم ہے ان کے یہ دو بڑے پارٹنر چونکہ انہیں کسی بھی وقت ایک بار پھر چوراہے کے عین بیچ چھوڑ کر اپنی راہ لے سکتے ہیں لہٰذا جب تک پی ڈی ایم کی اندرونی صفوں میں ایک دوسرے پر اعتماد بحال نہیں ہوگا تب تک اس سے کسی بڑے نتیجے کی توقع رکھنا محض خام خیالی ہوگی۔