وزیراعظم پاکستان عمران خان نیازی نے اب اپنے تمام بیانوں اور دعوئوں سے سب سے بڑا یوٹرن لے لیا ہے۔ انتخابات کے موقع پر پاکستان کو مدینے جیسی اسلامی ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اپنی ابتدائی تقریروں میں بھی وہ یہی اعلان کرتے رہے اور عمل اس کے برخلاف کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ میں اب تک جھوٹ بولتا رہا ہوں اور میری اصل خواہش ہے کہ میں پاکستان میں چین جیسا نظام لائوں۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم یا ان کے سرپرست پاکستانی قوم کو کیا سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک تماشا لگا ہوا ہے اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں اسلام کے سوا ہر نظام ہر طریقہ اور طرز حکومت آزما لیا گیا۔ کئی کئی نظاموں کی کھچڑی بناکر آزمالی گئی۔ جمہوریت بھی آزمائی گئی اور فوجی اور غیر فوجی آمروں نے اپنی طاقت بھی آزمائی ملک وہیں کھڑا ہے۔ غربت، بیروزگاری اور معاشی تباہی میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ وزیراعظم کل تک قوم کو ریاست مدینہ کے خواب دکھارہے تھے آج کہتے ہیں کہ پاکستان میں چین جیسا نظام لانا چاہتا ہوں اگر چہ انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی کہ چین جیسا کون سا نظام لانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان میں چین جیسے نظام کی بات ہی کیوں کررہے ہیں۔ انہوں نے چین کے نظام کا کتنا مطالعہ کیا ہے اس کے نتائج کیا ہوتے آج چین کا معاشرہ کس تباہی سے دوچار ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان، چین، امریکا، برطانیہ کے نظام کے لیے نہیں اسلامی نظام کے لیے وجود میں آیا تھا۔ وزیراعظم خود چین، امریکا یا برطانیہ وغیرہ جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں پوری پاکستانی قوم کو عذاب میں مبتلا نہ کریں۔ پاکستان کئی عشروں تک امریکی بلاک میں بلکہ امریکی غلامی میں رہا عوام کو کیا ملا ملک کو ترقی نہیں ملی بلکہ کوئی نظام اس ملک میں نہیں آیا۔ اب چین کا نام لینے کا کیا مطلب ہے۔ وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ انتخابی سیاست نہ ہونے کے باوجود بہترین لوگ اوپر آئے ہیں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا اخبارات میں اس کی بھی صراحت نہیں ہے کہ کون سے 70 کروڑ افراد کو کس نے غربت سے نکالا ہے۔ لیکن پاکستان کے 22 کروڑ افراد کو تو سطح غربت کے نیچے پہنچا دیا ہے۔ چند لاکھ لوگ ہی خوشحال زندگی گزاررہے ہوںگے۔ عمران خان نیازی کی حیرت انگیز باتوں میں سے یہ بھی ہے کہ انتخابی سیاست نہ ہونے کے باوجود بہترین لوگ اوپر آئے ہیں۔ وہ خود تمام سابقہ حکمرانوں بشمول فوجی حکمرانوں کو بدترین قرار دیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے تو وہ دشمن ہیں ہی اب باقی کون سے بہترین لوگ بچے۔ کیا وہ لوگ جو عمران خان کی کابینہ میں اور ساتھی ہیں۔ یا ان کے اتحادی جنہیں وہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دیتے تھے۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بہترین قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عمران خان بھول گئے کہ ان کی پارٹی میں ان کے بقول تمام بد ترین لوگ شامل ہوچکے ہیں۔ تو عمران خان صاحب کیا کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت میں بہترین لوگ ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے ادوار حکومت میں ملک کو تباہ کرنے، لوٹنے اور اداروں کی تباہی کے ذمہ دار اب پی ٹی آئی میں آگئے تو کیا پاک صاف ہوگئے اور بہترین لوگ قرار پا گئے۔ بلکہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے تو دو برس میں خود کو بدترین ثابت کردیا ہے۔ ان کے دو سالہ دور میں مہنگائی کئی سو گنا بڑھ گئی ہے۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ پیٹرول اور ڈالر آسمان پر پہنچ گئے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں واضح کمی آگئی ہے۔ قانون کی حکمرانی ختم ہوچکی ہے۔ دو سال سے زیادہ عرصہ عوام کی فلاح وبہبود بجائے ساری صلاحیتیں اور قوت نواز شریف اور زرداری کے خلاف لگائے رکھی۔ ملک میں کون حکمرانی کررہا ہے۔ اس پر بار بار سوالات اٹھتے رہے ہیں لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ حالات سے تو صاف ظاہر ہے کہ عمران خان حکومت چلانے کے اہل نہیں۔ لیکن اب انہوں نے جو انکشاف کیا ہے وہ ان کی نااہلی کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔ کہتے ہیں کہ ریاستی امور اہلیہ کی مشاورت سے چلارہا ہوں۔ وہ مسائل کے حل کا بہترین طریقہ بتاتی ہیں۔ کوئی احمق ہی اپنی بیوی سے ہر معاملے پر بات نہیں کرتا ہوگا۔ وزیراعظم صاحب کے بارے میں تو پہلے ہی کہا جاتا رہا ہے کہ مرغی انڈوں اور کٹے والے مشورے ان کو گھر سے ہی ملے ہوں گے۔ ملک کی معیشت سدھارنے کے لیے ایسے مشورے کسی ماہر معاشیات سے مل نہیں سکتے۔بلکہ صاف واضح ہے کہ وہ مشورے کہاں سے ملے ہیں۔ اب وہ یہ بتارہے ہیں کہ ریاستی امور اہلیہ کے مشورے سے چلارہا ہوں اگر ریاستی امور بہت اچھے چل رہے ہیں تو وہ اپنی اہلیہ کو مشیر بنالیں۔ اور اگر اچھے نہیں چل رہے تو ان سے مشورہ لینا چھوڑ دیں۔ لیکن وزیراعظم تو یہی کہتے ہیں کہ ریاستی امور اچھے چل رہے ہیں تو پھر ریاستی معاملات بیگم کے حوالے کرکے وہ چین کے نظام حکومت کا مطالعہ کرنے چین چلے جائیں۔ ہمارے حکمران طبقے کی نفسیات بھی عجیب ہے اسلام کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے باوجود اس پر تبصرے کرتے ہیں بلکہ فیصلہ کن جملے ادا کیے جاتے ہیں اب بھی وزیراعظم نوجوانوں کو اسلام سکھانے کی بات کررہے ہیں اور یہ بھی فرمارہے ہیں کہ میں اب بھی نئی نئی چیزیں سمجھ رہا ہوں دراصل وہ چیزیں نئی نہیں ہیں بلکہ وزیراعظم ان سے ناواقف تھے اس لیے انہیں نئی لگ رہی ہیں۔ وہ پہلے خود دین سیکھیں ریاست مدینہ کے بارے میں معلومات حاصل کریں ریاست کا نظم بیوی کے مشورے سے چلتا ہے نہ عالمی بینک اور امریکا و چین کے مشورے سے ریاست مدینہ کا نظم تو قرآن و سنت کے مطابق چلتا ہے اگر وزیراعظم سے یہ سب نہیں ہوتا تو وہ خود حکومت چھوڑیں پاکستان پر نت نئے نظام مسلط کرنے کا تجربہ نہ کریں۔