یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہماری عمر تقریباً 5 یا 6 سال کے لگ بھگ رہی ہوگی ان دنوں کچی پہلی اور پہلی کی کلاسیں ہوتی تھی آج کل کی طرح نرسری کے جی اور پھر پرائمری کے سلسلے نہیں ہوتے تھے بڑی سادہ سی زندگی تھی صرف کچی پہلی اور پکی پہلی کا تصور تھا ہمارے والدین نے بھی زمانے کی چال دیکھ کر ہمیں کچی پہلی میں داخل کرا دیا ظاہر ہے اتنا چھوٹا بچہ آسانی سے تو اسکول جاتا نہیں لہٰذا ہم روتے دھوتے اسکول لے جائے جاتے تھے۔
بچپن ہی سے ہمیں اپنی والدہ سے بہت لگائو تھا۔ یہاں تک کہ اسکول جاتے ہوئے ہم مڑ مڑ کر گھر کی طرف اور والدہ کی طرف دیکھتے رہتے تھے جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتیں۔ اکثر راستے میں کوئی پڑوسی مل جاتا تو اس کے ذریعے اماں کو سلام بھیجتے تھے۔ جس کا اثر آخر تک رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسقط بھی گئے اور امریکا بھی۔ مگر ہمارا دل کہیں نہیں لگا۔ یہی حال ہماری والدہ کا بھی تھا۔ وہ بھی ہم سے بچھڑ کر بیمار پڑ جاتی تھیں۔ اور جب تک ہم گھر واپس نہ آجاتے وہ بے قراری سے دروازے پر ہمارا انتظار کرتی رہتی تھیں۔ یہ معاملات ملازمت اور ہماری شادی اور بچوں کے بعد بھی یونہی جاری رہے۔ خیر یہ تو پس منظر اور پیش منظر تھا ایک ماں اور بیٹے کی انمول محبت کا۔
ہمارے محلے میں ایک خاتون تھیں جن کو ہم لوگ خالہ کہتے تھے اور اکثر وہ ہماری والدہ سے ملنے آتی تھیں اور ہماری والدہ کی بہت اچھی سہیلی تھیں۔ اتفاق سے ایک دن وہ آ گئیں جب کہ ہم روتے ہوئے اسکول جارہے تھے۔ اس زمانے میں لوگ بھی سادہ تھے اور محبتیں بھی پرخلوص ہوتی تھیں۔ جب خالہ نے ہمیں روتے دیکھا تو انہوں نے ہماری اماں سے بہت احتجاج کیا اور ان کے دباؤ میں آکر ہماری والدہ نے ہمیں اسکول سے اٹھوا لیا خالہ کہتی تھیں کہ اتنے چھوٹے بچے کو اسکول بھیجنا ظلم ہے۔ خیر ان کی وجہ سے ہمارا ایک سال ضائع ہوا لیکن ان کی محبت اور خلوص ہمیں آج بھی یاد ہے اور ہم انہیں یاد کرتے ہیں تو ان کا خوبصورت چہرہ نظروں میں آ جاتا ہے۔
خیر بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی
ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آئے گی
سال گزرتے پتا نہ چلا اور ہمیں دوبارہ کچی پہلی میں داخل کر دیا گیا ان دنوں ہم سعودآباد میں رہتے تھے مگر اسکول ہمارا بہت دور تھا تقریباً ڈیڑھ میل کے قریب فاصلہ ہوگا ویسے تو اس جگہ کا نام جناح اسکوائر تھا مگر کیونکہ اسکول کے پاس ہی ایک بہت بڑا جوہڑ تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا اور اس میں بھینسیں نہاتی ریتی تھیں۔ اس حوالے سے اس جگہ کا عوامی نام بھینس کالونی پڑ گیا تھا ہمارے پرائمری اسکول کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا جس کے بعد ملیر کے باغات شروع ہو جاتے تھے۔
اس زمانے میں وین کا رواج نہ تھا ہم سعودآباد نمبر 2 میں رہائش رکھتے تھے اور ہمارے ہی اسکول کے ایک بزرگ بھی سعودآباد نمبر1 میں رہا کرتے تھے نہ صرف یہ کہ وہ بہت بزرگ تھے بلکہ انہوں نے اپنی ڈاڑھی کو خضاب سے لالو لال کر رکھا تھا اس نسبت سے ہم سب بچے ان کو لال ڈاڑھی والے دادا کہتے تھے اس زمانے میں استاد کی عزت تو بہت بڑی چیز تھی مگر اسکول کے چھوٹے ملازمین جیسے چپڑاسی اور چوکیدار وغیرہ کو بھی بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کا نام آج تک ہمیں معلوم نہ ہوسکا اور ہم سب ان کو لال ڈاڑھی والے دادا ہی کہتے رہے۔ وہ دادا ہمیں اسکول اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے اور واپس بھی اپنے ساتھ ہی لے کر آتے تھے ہم سب پیدل ہی اسکول آتے جاتے تھے ہم کئی بچے ان کی زیر نگرانی تھے اس پر خلوص زمانے میں وہ یہ کام فی سبیل اللہ کرتے تھے کبھی اس کا معاوضہ نہیں لیا اور نہ ہی تقاضا کیا ہمارے ہاتھوں میں بھاری بھر کم بستے ہوتے تھے اور ساتھ ہی تختیاں بھی ہوتی تھیں۔ گرمی سردی برسات ہر موسم میں اسی طرح آنا جانا ہوتا تھا۔ پرائمری اسکول میں ایک انجمن ادب بھی ہوتی تھی ہمارے اساتذہ نے اتفاق سے ہم جیسے بے علموں کو اس کا صدر بنا دیا تھا۔ ہر جمعہ کو اس کی محفل ہوتی تھی اس دن ہم بہت شوق سے اپنی بروکیڈ کی شیروانی پہن کر جاتے تھے جو ہمارے والدین نے روزہ کشائی اور تکمیل قرآن پر ہمیں دی تھی۔ اس محفل میں تقریریں بھی ہوتی تھیں اور بیت بازی بھی ہوتی تھی۔ شعر و شاعری بھی ہوتی تھی یوں پرائمری ہی سے ہمیں علم و ادب کی تربیت دی جاتی تھی اساتذہ سرپرستی فرماتے تھے اور ہم سب کو علم و ادب اور تمیز و تہذیب سکھائی جاتی تھی۔
ہمارے لال ڈاڑھی والے دادا اسکول کی گھنٹی بجانے پر مامور تھے یہ اب سے پچاس پچپن برس پہلے کا پرائمری اسکول تھا جو آج کل کے اچھے سے اچھے اسکولوں سے کسی بھی طرح کم نہ تھا اکثر ہمارے والدین لال ڈاڑھی والے دادا کے یہاں کوئی پکی ہوئی چیز یا مٹھائی وغیرہ بھی بھیجتے تھے ہم بچے ان کے گھر جاتے تو وہاں دیکھتے تھے کہ کچے آنگن میں انہوں نے بہت سارے پودے لگائے ہوئے تھے جن میں ایک انگور کی بیل بھی تھی اور ان میں جب انگور آتے تھے تو ہم لوگ بھی انگور توڑ کر کھاتے تھے جس کا ذائقہ آج بھی محسوس ہوتا ہے۔
اب اتنا زیادہ وقت گزر چکا ہے کہ یہ بھی یاد نہیں کہ ان کے اہل خانہ کی کیا تفصیل تھی مگر ان کا گھر اور ان کا چہرہ آج بھی نظروں میں آجاتا ہے جیسے ایک ریوڑ کا چرواہا اپنی بکریوں کو پوری حفاظت کے ساتھ لے کر جاتا ہے۔
اسی طرح وہ بھی ہم سب بچوں کا خیال رکھتے تھے ہم تو پرائمری کے پانچ سال ان کے ساتھ آتے جاتے رہے لیکن وہ نجانے یہ کام کب سے کر رہے تھے اور ہمارے بعد کب تک کرتے رہے۔ اس کام کو بڑی خوبی سے کرتے تھے کبھی ماتھے پر شکن نہ آئی ہمیشہ چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔ صوم و صلوٰۃ کے بھی پابند تھے۔ وقت بہت تیزی سے گزر گیا اور ہم سیکنڈری اسکول میں آ گئے۔ آٹھویں کلاس پاس کر کے عزیزآباد منتقل ہوگئے اور مزید ذمے داریاں بڑھتی گئیں۔ آہستہ آہستہ سعودآباد سے رابطے کم ہوتے چلے گئے اسی دوران نجانے کب ان کا انتقال ہوا۔ کافی عرصے کے بعد ہمارا سعوآباد جانا ہوا اور معلومات کی تو پتا چلا وہ اس دار فانی سے کوچ کر چکے ہیں دل و دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا آنکھیں نم ہو گئیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ہمارے سگے دادا کا انتقال ہوگیا ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو اپنی جنتوں میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین