چینی دھمکی: امریکا جنوبی ایشیا میں غنڈہ گردی بند کر ے

433

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت کے بعد سری لنکا، مالدیپ اور ویتنام کا دورہ مکمل کر کے امریکا واپس پہنچ گئے۔ وزیر خارجہ مائیک پومپیو 27اکتوبر کو بھارت سے نکلتے ہی بھارت کی زبان میں ساؤتھ ایشائی ممالک سے گفتگو کرنے لگے۔ سری لنکا، مالدیپ میں مائیک پومپیونے بہت سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکا کی باتوں پر عمل کرو گے تو دنیا میں ہر جگہ امریکا کی حمایت حاصل ہوگی ورنہ بربادی تمہارا مقدر بنا دیا جائے گا‘‘۔ مالدیپ میں مائیک پومپیو نے اپنا سفارت خانہ کھولنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ بنگلا دیش سے اطلاع ہے کہ حسینہ واجد نے فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام اور توہین امیز خاکوں کی تشہیر کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کو بنیاد بنا کر اس دورے کو ملتوی کرنے کی درخواست کی جس کے بعد مائیک پومپیو بنگلا دیش کا دورہ منسوخ کر کے امریکا ویتنام دوستی کی سلورجوبلی تقریب میں شرکت کے لیے شمالی ویتنام پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ1994ء میں امریکا کو جنوبی ویتنام میں نفرت امیز شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے امریکا کے تمام عہدیداران ویتنام کے دورے کے لیے ہمیشہ شمالی ویتنام کا انتخاب کرتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے دورے میں مائیک پومپیو نے ’’نیپال اور سری لنکا‘‘ کو دھونس دھمکی سے بھارت کی حمایت پر مجبور کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں چین کی جانب سے تنبیہ آئی کہ ’’مائیک پومپیو اس طرح کی گفتگو نہ کریں‘‘۔ چین نے امریکا کی طرف سے سری لنکا کو دی جانے والی کی دھمکی کو غنڈہ گردی قرار دیتے ہو ئے کولمبو میں چینی سفارت خانے کی جانب سے یہ بیان جاری کیا کہ: ’’امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی دھمکیوں کا مقصد خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے خلاف کام کرنا ہے۔ سفارت خانے کا کہنا تھا کہ: ’’چین ریاست ہائے متحدہ امریکا کی جانب سے سری لنکا کو دی جانے والی دھمکیوں کو چین سری لنکا تعلقات میں مداخلت سمجھتا ہے، چین نے مائیک پومپیو کے سری لنکا کے دورے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا کو زبردستی بھارت کا حمایتی بنانے اور دھمکانے پر چین کو سخت تشویش ہے‘‘۔
چین نے کہا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ایک حصے کے طور پر سری لنکا میں انفرا اسٹرکچر منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے، جس کا مقصد ایشیاء اور یورپ کو جوڑنا ہے۔ لیکن اس سے ’’بھارت اور امریکا کو خطرہ ہے‘‘ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ چین کے سری لنکا سے تعلقات دو ہزار سال پر محیط ہے اور دونوں ممالک اپنی دوستی مضبوط کرنے کے لیے کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں ہے۔ اُدھر سری لنکا میں مارکسسٹ سیاسی جماعت، پیپلز لبریشن فرنٹ کے ارکان نے ملکی معاملات میں امریکی مداخلت کے خلاف کولمبو میں امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرہ کیا۔ چین نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ سری لنکا کو دھونس دھمکی نہ دیں۔ پومپیو کا سری لنکا کا دورہ، اور بعد میں بحر ہند کے ایک دوسرے جزیرے مالدیپ کا دورہ، چین کو چھوٹے ممالک میں معاشی ترقی کو روکنے کی کوشش کے حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس کے لیے امریکا ان ممالک کو بہت بڑا قرض دینے پر بھی راضی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سری لنکا طویل مدت سے اپنی معاشی آزادی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن بھارت اس میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ چین نے پومپیو کے دورے پر نارضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مائیک پومپیو ایک ایسے وقت میں دورہ کر رہے ہیں جب سری لنکا کورونا کے خلاف جدوجہد کررہا ہے۔ کیا یہ دورہ مقامی وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے مفید ہو سکتا ہے؟ اور یہ سب کچھ سری لنکن عوام کے مفاد میں ہے، ’’سفارت خانے کا کہنا تھا کہ چینی کا اعلیٰ سفارت کار، یانگ جائچی کی سربراہی میں چینی وفد نے رواں ماہ کولمبو کا دورہ کیا لیکن کویڈ کی وجہ سے چینی اہلکاروں اور سرگرمیوں کو محدود رکھا گیا۔
امریکا کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ پومپیو مضبوط اور خودمختار سری لنکا کے ساتھ شراکت داری اور خطہ ہند وبحرالکاہل کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے سری لنکا گئے تھے۔ وزیر خارجہ پومپیو مالے کے دورے میں دونوں ممالک میں قریبی دوطرفہ تعلقات کی توثیق نو اور علاقائی سمندری سلامتی سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ تک متعدد امور پر باہمی شراکت کو ترقی دینے کے لیے بات چیت ہوئی اور مالے کی بہت ساری غلط فہمی کو دور کیا گیا۔ لیکن اس سے بڑھ کر مالے کو امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی کہ وہ نقشہ جو تم نے بنایا اور اپنی قومی اسمبلی سے منظور کرایا تھا اس کو ختم کرو اور بھارت کے ساتھ مل کرخطے میں کام کرو۔ اس کے بعد بھارتی عسکری قیادت فوری طور پر مالے پہنچ گئی۔ پومپیو کے بارے یہ بھی کہا جارہا ہے وہ پاکستان بھی آئیں گے لیکن امریکا کی27 اکتوبر کو بھارت سے پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان نے مثبت جواب نہیں دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکا کو یہ بات بہت دیر میں سمجھ میں آئے گی کہ وہ اب دنیا میں واحد سپرُپاور نہیں رہا اور اس کے لیے ضروری ہے امریکا اپنے ہی لوگوں کی رائے پر بہت توجہ سے ایک مرتبہ پھر غور کرے۔ ’’جنرل مارٹن ڈیمپسی نے 2014ء میں امریکی چیف آف ا سٹاف کے عہدے سے سبکدوشی سے دو سال قبل چین کے بارے میںکہا تھا کہ امریکا کو بہت جلد چین سے جنگ کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا، جس طرح سرد جنگ کے دوران اسے سوویت یونین سے جنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا‘‘۔ ان کی باتیں آج درست ثابت ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جنرل ڈیمپسی نے یہ بات 2012 میں اوباما انتظامیہ کی مشرقی ایشیا کو ترجیح دینے کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں کہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی الوقت امریکا کا سب سے بڑا مسئلہ چین ہے اور دونوں ممالک کے درمیان 2018 کے وسط سے ’ٹیرف وار‘ یعنی تجارتی جنگ جاری ہے۔ لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان خطے میں چین سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ملک بن چکاہے۔ خطے میں دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ہر صورت پاکستان کو اپنا اتحادی بنانا ہو گا۔ اگر کسی ملک نے ایسا نہیں کیا تو اس کا حشر امریکا اور سویت یونین جیسا ہوگا ’’تم مانگتے پھرو گے اپنا غرور ہم سے‘‘۔