پاکستان میں آج کل بیانیے کی جنگ چھڑی ہوئی ہے بلکہ بیانیوں کی ۔حکومت اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو بھارتی بیانیہ قرار دیتی ہے اور اب اپوزیشن حکومت کے بیانیے کو بھارتی بیانیہ قرار دینے لگی ہے ۔ ذرا حساس معاملہ ہے فوج یا اس کے کسی افسر پر تنقید بھی اسی زمرے میں آتی ہے ۔ جتنا شدید معاملہ اور سوال نہیں ہوتا اس سے زیادہ شدید رد عمل آ جاتا ہے۔ اپوزیشن نے کہا کہ کرائے کے ترجمان غداری کے سر ٹیفکیٹ بانٹنا بند کر دیں ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ فوج کے خلاف بات کرنے والے بھارت چلے جائیں ۔وزیر اعظم نے بھی کہا کہ لوگ مودی کی زبان بولنے والے میر صادق اور میر ایاز کو دیکھ رہے ہیں ۔ اخبارات اوپر سے نیچے تک پہلے سے آخری صفحے تک ان ہی باتوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ کوئی مقدس گائے نہیں سب کو جواب دینا ہو گا ۔ یہ اور بات ہے کہ جواب لے گا کون۔ یعنی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ۔ اسی طرح کا بیان حکومتی ترجمان شبلی فراز نے دیا ہے کہ نواز شریف اور فضل الرحمن شر کی قیادت کر رہے ہیں ۔ بلاول بھی بولے تو خوب بولے اپنے والد والدہ اور نانا کی سیاست بھول کر وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم میں منافق کی ساری نشانیاں موجود ہیں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ وزیر اعظم ہوں یا اپوزیشن کے یہ لیڈر جو آج کل حکومت کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ۔ بلاول کی بیان کردہ نشانیوں کے مصداق ہیں ۔ یہ نشانیاں تو ہمارے نبی ؐنے بیان کی تھیں ۔ یہ بات کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں ۔وعدہ کرتے ہیں تو وعدہ خلافی کرتے ہیں ۔ امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرتے ہیں ۔ اپوزیشن اور حکومت والے سب کے سب ان نشانیوں کے مرتکب ہیں ۔ اس فرمان کی روشنی میں ہر کوئی اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے لیکن ان لوگوں نے ملک کو کیا بنا رکھا ہے ۔ اخبار کھولو تو بیانیہ ، بیانیہ اور بیانیہ۔ اور کچھ نہیں ایک نے دوسرے کواچار کہا اس نے پلٹ کر مربہ کہہ دیا ۔ عوام اتنے بے وقوف ہیں کہ اس پر واہ واہ کرتے ہیں ۔ اب کہا گیا ہے کہ لوگ حکمرانوں کے دھوکے میں آئیں گے نہ یہ اداروں کے پیچھے چھپ سکتے ہیں اور حکمران پارٹی ہے کہ ڈنکے کی چوٹ پارٹی جھنڈا اور آرمی چیف کی تصاویر اُٹھائے جلوس نکال رہی ہے ۔پاکستانی سیاست کا یہ چہرہ کون بنا رہا ہے ۔بیانیہ کیا چیز ہے ۔ کیا بیانیہ نظریہ پاکستان سے بھی بالا تر کوئی چیز بن گیا ہے ۔ قائد اعظم کی سو سے زائد تقاریر میں پاکستان میں اسلامی نظام کی بات کی گئی تھی ۔ سیکولر بھارت کی موجودگی میں قائد اعظم پر سیکولرپاکستان بنانے کاالزام ان کو منافق کہنے کے مترادف ہے یہ بات کہنے والوں پر کوئی الزام نہیں لگتا ۔ ایک سوال یہ ہے کہ قائد اعظم نے کب کہا تھا کہ پاکستان میں ادارے مقدس گائے ہوں گے ۔ قائد اعظم نے کب کہا تھا کہ حکومت پر تنقید دشمن کا بیانیہ قرار پائے گا ۔ قائد اعظم کی پوری سیاسی جدو جہد قرار داد پاکستان کے بعد سے کہیں بھی کسی بھی طرح پاکستان کو سیکولر بنانے کی نہیں تھی ۔قائد اعظم کی تقریروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے والوں کو کوئی پاکستان کا بیانیہ یاد نہیں دلاتا ۔ میراثیوںکی طرح روز دونوں طرف سے جگتیں لگائی جا رہی ہیں ۔اس شور شرابے میں پاکستان کا بیانیہ غائب ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن جو شور شرابا کر رہی ہے اس کا پاکستان کے بیانیے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ قائد اعظم کے مزار کی توہین برداشت نہیں ہے وہاں پاکستان کے پرچم جلائے گئے ۔وہاں پاکستانی قوم کی بیٹی کو سرکاری گارڈز نے بے عزت کیا اسے کمرے میں بند کر کے اس کی عزت تار تار کی ۔ اسی مزار کے سائے میں انتظامیہ پیسے لے کر فلموں کی اجازت دیتی ہے ۔ یہاں کے افسران پیسے لے کر لڑکے لڑکیوں کو وہ مقامات اور ماحول دیتے ہے جس کے لیے وہ مزار قائد کے احاطے میں آتے ہیں ۔ حیرت ہے حکومت ریاست قائد کے مزار کے تقدس کے علمبر دار سب خاموش رہتے ہیں۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ بیانیوں کی جنگ بند کر کے قائد اعظم کا بیانیہ سامنے لایا جائے ۔ یہ کیسا کھیل ہے پاکستان کے22کروڑ عوام اس بات سے بے پروا کیوں ہیں کہ قائد کا بیانیہ مسلسل پیچھے کیا جا رہا ہے ۔ نت نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اور اسے بیانیہ کی تکرار کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کو مسحورکرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اس قدر شور ہے کہ آٹا، چینی مافیا کے بارے میں پوچھنا چھوڑ دیا گیا ہے ۔ حکومتی اداروں کے فیصلے پیچھے چھوڑ دیے گئے ہیں ۔ بس بیانیہ پر زور ہے ۔ مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے لیکن حکومت کا زور بیانیے پر ہے ۔ ان بیانیوں میں جتنی باتیں کی گئی ہیں یہ در اصل ایک دوسرے کے خلاف سیاسی ایف آئی آر ہے اور ان الزامات کی تصدیق ہے جو یہ ایک دوسرے پر لگاتے رہتے ہیں ۔ حکمران اور ان کے سر پرست اور اپوزیشن سب ان الزامات کی زد میں آتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان الزامات سے بچنے کے لیے بیانیے کے پیچھے چھپ رہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی یہ کہ روزانہ کی بنیا د پر نظریہ پاکستان اور قائد اعظم کا بیانیہ دہرایا جائے تاکہ قوم کو پاکستان کا اصل مقصد یاد رہ سکے ۔ قوم کو یہ سبق یاد کرانے کے بعد اسلام آباد کا رُخ کیا جائے تاکہ درست بیانیہ سامنے آ سکے ۔