ریاستی امور خانہ داری

231

دنیا میں ہمہ اقسام لوگ ہوتے ہیں پہلی قسم بہت مشہور ہے، بات کرتے وقت نہیں سوچتی یہ لوگ پہلے بول دیتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔ ایسے لوگ بے شمار ہیں۔ ایک قسم ایسے لوگوں کی ہے جو سوچتے ہی نہیں اور بولتے رہتے ہیں۔ یہ بھی بے تحاشا پائے جاتے ہیں۔ ایک قسم ایسے لوگوں کی بھی ہے جو جب بولتے ہیں اس پر دوسرے سوچتے ہیں کہ ایسی چنگاری بھی اپنے خاکستر میں تھی۔ یہ قسم کمیاب ہے لیکن آج کل وزیراعظم ہائوس اور بنی گالا میں دستیاب ہے۔ ہماری مراد وزیراعظم عمران خان سے ہے۔ یہ جب بھی بولتے ہیں ایسا ہی بولتے ہیں کہ لوگ پوچھتے رہ جاتے ہیں یہ کس کی زبان ہے۔ جملوں سے پیغام کا پتا چلتا ہے اور یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زلزلے کا مرکز کہاں ہے۔ موصوف نے تازہ ترین کام یہ کیا ہے کہ بیک وقت کئی انکشافات کر ڈالے ہیں۔ ایک تو سب سے بڑا انکشاف یہ کیا کہ مولانا فضل الرحمن، نواز شریف سمیت اپوزیشن کے تمام رہنمائوں کے اس سوال کا جواب مل گیا کہ حکومت کوئی اور چلا رہا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی اہلیہ کے مشورے سے ریاستی امور چلا رہا ہوں۔ یہ بات سنتے ہی سارا ماجرا سمجھ میں آگیا۔ وزیراعظم کو بہت کام ہیں انہیں نواز شریف، شہباز شریف کے پورے خاندان کو جیل بھیجنا ہے۔ زرداری اور بلاول سے ڈیل کرنی ہے۔ اپنے حلیفوں کو باندھ کر رکھنا ہے، مودی اور اس کی بدمعاشی پر ہفتے وار بیانات دیتے ہیں۔ عالمی رہنمائوں کو خطوط لکھنے ہیں، ریاستی امور کیا ہیں امور خانہ داری ہیں۔ چناں چہ انڈے، مرغی کے ذریعے خواتین کی معیشت سدھارنے کا منصوبہ جس کے نتیجے میں قومی معیشت مستحکم ہونے کا امکان سامنے لایا گیا تھا۔ سب کی سمجھ میں آگیا کہ یہ منصوبہ کہاں سے آیا تھا۔ اسی طرح کٹے اور قرضوں کے ذریعے معاشی خوشحالی کے منصوبے بھی سمجھ میں آنے لگے۔ ٹائیگر فورس کے ذریعے بارش کا مقابلہ پھر اچانک اس فورس کو مہنگائی کے مقابلے پر لگانے کا فیصلہ بتارہا ہے کہ ریاستی فیصلوں کے لیے مشورے کہاں سے آرہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ریاستی امور خانہ داری…
اس بارے میں البتہ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وزیراعظم کو بھارت سے مقابلے سے کس نے روک رکھا ہے۔ لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں ہوتی اب آپ کھلاڑی بھی نہیں رہے۔ یہ بات تو اہلیہ نے بتائی ہی ہوگی کہ اب آپ وزیراعظم بن گئے ہیں۔ کیوں کہ خان صاحب اس کا بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ ڈالر مہنگا ہونے کا ٹی وی سے پتا چلا اور وزیراعظم ہونے کا بیوی سے۔ وزیراعظم نے مودی کے 5 اگست 2019ء کے اقدام پر اپوزیشن کے احتجاج اور عوامی مظاہروں پر برہم ہو کر کہا تھا کہ کیا بھارت پر حملہ کردوں۔ لیکن اس سے کسی نے تو روکا ہوگا۔ ریاستی امور میں اہلیہ سے مشورے کا یہ فائدہ ہوا کہ جنوبی ایشیا ہولناک جنگ سے بچ گیا۔ ظاہر ہے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنگ تو نہیں بنتی۔ جنگوں کا موضوع تو ساس اور نندوں کی مداخلت ہوتی اور وہ اتفاق سے ہو نہیں رہی ہے اس لیے سکون ہے۔ اور اب کسی نئی نویلی کے آنے کا خدشہ بھی نہیں لگتا اس لیے درونِ خانہ بھی کوئی جنگ ممکن نہیں۔ ہمارے ٹائیگر وزیراعظم نے جب یہ بتایا کہ ریاستی امور میں اہلیہ سے مشورے کرتا ہوں تو انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ پاکستان میں چین جیسا نظام لائوں گا۔ ارے بھائی یہ چین جیسا نظام مدینہ کی ریاست میں بھلا کیسے ممکن ہے۔ چین کے نظام کی بات انہوں نے غالباً اہلیہ کے مشورے کے بغیر کرڈالی ہے ورنہ اس میں کوئی منطق کوئی حکمت ضرور ہوتی۔ عمران خان خود تو کبھی نہیں سوچیں گے کہ انہوں نے کیا کہا ہے لیکن قوم ضرور سوچ میں پڑ گئی ہے کہ ریاست مدینہ میں چین کا نظام کیونکر نافذ ہوگا۔ لامذہب ریاست مدینہ کیسا عجیب خیال ہے۔ چین میں مسلمانوں کے پورے شہر سنکیانگ کو ٹارچر سیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ نسل کشی، جبری طور پر اصلاحی مراکز میں داخل کرنا، مذہب پر عمل میں مشکلات اور مسلمانوں کے بارے میں دنیا کو معلومات بھی نہ دینا چینی نظام ہے۔ پاکستان چین سے 56 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کے دبائو میں ہے اس لیے وزیراعظم کو یہ بات کہنی پڑی ہوگی۔ حیرت ہے کسی نے اس کا نوٹس اس طرح نہیں لیا جیسے لینا چاہیے۔ ریاست مدینہ کا نظام کسی غیر اسلامی ملک کے نظام سے کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ آج کل ویسے بھی غداری اور حب الوطنی کا مقابلہ چل رہا ہے، پہلے تو صرف اپوزیشن پر الزام تھا کہ وہ بھارتی بیانیہ یا نوازیتی بیانیہ بول رہی ہے۔ پھر سابق اسپیکر ایاز صادق نے بڑا غلط کام کر ڈالا اب فواد چودھری موضوع گفتگو ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ فواد چودھری کو سرٹیفکیٹ نہیں ملا۔ اس سرٹیفکیٹ سے محرومی کا سبب یہ ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں اور وزیر ہیں۔ یہ معاملات ایسے ہیں کہ ان پر اہلیہ سے مشورہ کیا بھی نہیں جاسکتا۔ وزیراعظم نے اس پر یقینا اس کے اہل لوگوں سے مشورہ کیا ہوگا۔ وہی سرٹیفکیٹ دینے کے بھی اہل ہیں۔ اہلیہ تو کم از کم ایسے سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتیں۔ خان صاحب نے البتہ ایک غلطی کی ہے پہلے انہوں نے اس قوت کو سیاست میں گھسیٹا جو سب کو اہل اور نااہل کردیتی ہے۔ اب اہلیہ کے بارے میں برملا بیان جاری کردیا ہے۔ ’’اہل‘‘ کو بار بار اپنے پیچھے اور ساتھ دینے کا اعلان کیا اور وہاں سے بھی خاموشی۔ یعنی رضا مندی تھی۔ لیکن اپوزیشن کا کیا ہے وہ تو اپنی توپیں وزیراعظم کی طرف کیے بیٹھی ہے۔ ان کے ہر بیان کا نوٹس لیتی ہے۔ اب وزیراعظم تو مطمئن ہیں کیوں کہ وہ سوچیں گے نہیں۔ سوچنا کس کو چاہیے اس کا مشورہ ہم نہیں دے سکتے۔ بس وزیراعظم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا یہاں نت نئے تجربات نہ کریں۔ پیٹ کی خاطر ہر چیز قبول نہیں کی جاسکتی۔ چینی نظام کا مطلب معاشی خوشحالی نہیں بلکہ آزادیوں پر قدغن اور دین پر پابندیاں ہوں گی۔ کیا وزیراعظم ریاست مدینہ میں ایسا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔