امریکامیں انتخابی ہنگامہ آرائی کا خدشہ

295

دنیا کی سب بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہونے کی وجہ سے امریکا کے صدر صرف یو ایس اے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں بسنے والوں کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے تین نومبر 2020 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کا اثر دنیا بھر پر پڑے گا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس بار امریکی انتخابات میں شدید ہنگاموں کے خدشات کی وجہ سے امریکا کے خفیہ اداروں اور افواج کی جانب سے 3 تا 30نومبر 2020 کے لیے امریکا کو خطرناک قرار دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اگر 30نومبر تک حالات میں بہتری نہ آسکی تو فوج کو امر یکا کے انتظامی امور میں مداخلت کی ضرورت ہو گی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ سفید اور سیاہ فام دونوں کی جانب سے اسلحہ بر دار گروپ امریکی سڑکوں پر کھلے عام نظر آرہے ہیں اب تک کروڑوں امریکی اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔
دی گارجین کا کہنا ہے کہ: امریکی پولیس اور فوجی دستوں کو تیاری کا حکم کیوں دیا ہے؟ اس سلسلے میں امریکا کے رسالے فارن افیئرز کا کہنا بھی یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی وجہ سے امریکا کے صدارتی انتخابات میں فوج کو مکمل طور سے مداخلت کا موقع مل رہا ہے۔ امریکا سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سروے میں رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو 40فی صد ووٹرز نے پسند کیا ہے ان کے بر عکس ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کو 53فی صد عوام ووٹ دینے کی یقین دھانی کرا چکے ہیں لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کے اس پیچیدہ نظام میں صرف دو ریاستوں کے سوا باقی تمام ریاستوں میں اکثریت حاصل کرنے والے کے کھاتے میں الیکٹورل کالج کے تمام ووٹ ڈال دیے جاتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ: ’’سہاگن وہی جس کو پیا چاہے‘‘۔
امریکی سیاست بنیادی طور پر دو جماعتی نظام پر قائم ہے اور صدر ان ہی دو جماعتوں میں سے کسی ایک سے منتخب ہوتا ہے۔ رپبلکن پارٹی جو قدامات پسند جماعت ہے اس کی طرف سے 2020 کے صدارتی انتخاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا گیا ہے اور وہ چار سال کی صدارتی مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ منتخب ہونے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ ماضی قریب رچرڈ نکسن، رونالڈ ریگن، جارج بش اور جارج ڈبلیو بش، رپبلکن پارٹی کی طرف سے صدر منتخب ہوتے رہے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی ایک لبرل جماعت ہے اور اس کے امیدوار جو بائیڈن ماضی میں سابق صدر اوباما کے ساتھ آٹھ سال تک نائب صدر کے اہم عہدے پر فائز رہے ہیں اور سیاست کے میدان میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ امریکا کے دونوں امیدوار کافی عمر رسیدہ ہیں اور اپنی زندگیوں کی 70 سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ اگر دوسری مرتبہ منتخب ہو گئے تو اپنے اقتدار کی دوسری مدت شروع کرنے سے قبل ہی وہ 74 برس کے ہو جائیں گے۔ جو بائیڈن جن کی عمر اس وقت 78 برس ہے اگر انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو امریکا کی سیاسی تاریخ میں وہ سب سے عمر رسیدہ صدر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیں گے۔
امریکا میں انتخابی جیت کا تعین دونوں امیدوار ’’الیکٹورل کالج ووٹ‘‘ یعنی ’’انتخابی حلقوں‘‘ کے زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا کی بنیاد پر ہوگا۔ ہر ریاست کے لیے اس کی آبادی کے اعتبار سے الیکٹورل کالج ووٹ کی ایک خاص تعداد مختص کر دی گئی ہے۔ اس طرح الیکٹورل کالج ووٹ کی کل تعداد 538 ہے لہٰذا جو جماعت نصف سے زیادہ یعنی 270 ووٹ حاصل کر لیتی ہے اس کے صدارتی امیدوار کو کامیاب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ریاستی سطح پر مقابلہ ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ملکی سطح پر مجموعی طور پر زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار مطلوبہ تعداد میں الیکٹورل ووٹ حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے صدارتی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ 2016 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلٹن نے مجموعی طور پر صدر ٹرمپ سے 30 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کیے تھے لیکن وہ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھیں۔
اُدھر دوسری جانب امریکا میں اتوار اور پیر یکم و2نومبر کے دوران کوویڈ 19-سے متاثرین کی تعد اد میں ایک لاکھ 15سے 20ہزار تک اضافے کے خدشات موجود ہیں۔ کوویڈ19-کی وجہ سے زیادہ تر لوگوں نے صدارتی پوسٹل حق رائے دہی کا طریقہ استعمال کر لیا ہے۔ اٹھارہ ستمبر سے مینی سوٹا، ورجینیا، جنوبی ڈکوٹا اور وایومنگ ریاستوں میں صدارتی الیکشن کے لیے پولنگ کے لیے مقررہ تاریخ یعنی تین نومبر سے پہلے ہی ووٹنگ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ امریکا میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب زیادہ تر ریاستوں کے گورنر پوسٹل ووٹنگ کی حمایت کر رہے ہیں لیکن صدر ٹرمپ اس کی شدید مخالفت کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس سے انتخابات میں دھاندلی کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
امریکا اور دنیا بھر میں 2020ء انتخابات کے حوالے سے خدشہ پیدا ہوگیا کہ انتخابات کا نتیجہ آنے کے بعد اقتدار کی منتقلی منظم انداز میں ہو سکے گی یا پھر معاملہ قانونی جنگوں اور تشدد کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ دنیا حیرت سے دیکھ رہی ہے کہ انتخابات کی ہنگامہ آرائی میں کس طرح امریکی جمہوریت اور اس کے آئینی اداروں کو کمزور کیا جارہا ہے۔ امریکا میں بڑھتی ہوئی تفریق نے انتخابی عمل کی سالمیت پر قائم سیاسی اتفاق رائے کو اس حد تک متاثر کردیا ہے کہ اب انتخابی نتائج پر عدم قبولیت کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ اب تک ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن مقبولیت کے تمام قومی اشاریوں میں ٹرمپ سے آگے نظر آرہے ہیں۔ لیکن بیٹل گراؤنڈ یا سوئنگ اسٹیٹس کہلائی جانے والی ریاستوں میں معرکہ ابھی بھی سخت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان ہونے والے صدارتی انتخابات سخت تنازعے اور کشمکش کا شکار ہیں۔ اگر حالیہ امریکی تاریخ کی روشنی میں بات کی جائے تو یہ انتخابات سب سے زیادہ نتیجہ خیز انتخابات میں سے ایک ہوں گے۔امریکا جو پہلے ہی غیر مہذب ہے، اب منہ زور ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کیونکہ اس کے ادارے تباہ ہو رہے ہیں، تعصب شدید تر ہوگیا ہے اور ٹرمپ جنہوں نے اس رجحان کو جلا بخشی ہے اب امریکا کو پستی کی جانب لے جانے کے لیے پوری قوت صرف کر رہے ہیں۔