آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورنو کاراباخ کے معاملے پر تنازعے نے ایک بار پھر شدت اختیار کرلی ہے۔ دونوں ممالک جنگ تک پہنچ گئے ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری کا متوجہ ہونا بھی لازم ہوچکا ہے۔ یورپی یونین نے غیر معمولی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز تک لانا اشد ضروری ہے۔ اگر اس معاملے میں تاخیر کی گئی تو جنگ کی آگ پورے خطے کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ 1994 میں یورپی کونسل نے 28 سال کی سفارتی کوششوں کے بعد نگورنو کاراباخ کے تنازعے کا حل پیش کیا تھا۔ بہت کچھ درست ہوسکتا تھا مگر آرمینیا نے دیرپا امن کے حوالے سے پیش کیے جانے والے حل یعنی معاہدے کو درخورِ اعتناء نہ جانا اور ہٹ دھرمی کے ذریعے معاملات کو الجھا ہوا ہی رہنے دیا۔ آرمینیا کی ہٹ دھرمی ہی کے باعث معاملات پھر بگڑ گئے اور مصالحت کار بھی پریشان ہوئے۔ ان کی طویل مدت کی محنت یوں اکارت ہوئی کہ پھر انہوں نے کچھ نہ کرنے کو ترجیح دی۔
ایک طرف کورونا کی وبا اور دوسری طرف امریکی صدارتی انتخاب، پھر بیلاروس کا بحران بھی ہے اور بریگزٹ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں امریکا، روس اور فرانس بھی آذر بائیجان اور آرمینیا کے تنازع کا کوئی باضابطہ اور دیرپا حل تلاش کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ 27 ستمبر 2020 کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی غیر معمولی شدت اختیار کرگئی اور معاملہ جنگی کارروائیوں تک جاپہنچا۔ 1994 کے بعد کی شدید ترین لڑائی میں فریقین کے 1200 سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ معاملہ یہاں تک رکتا تو کوئی بات نہ تھی۔ مشکل یہ ہے کہ اس لڑائی نے ایک بار پھر نقل مکانی کو ہوا دی ہے۔ لڑائی کے باعث دونوں طرف کے لاکھوں شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے 10 اکتوبر کو جنگ بندی کی اپیل کی تاکہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہوسکے، لاشیں اٹھائی جاسکیں اور بے گھر ہونے والوں کو محفوظ مقامات تک پہنچنے میں مدد دی جاسکے۔ یہ جنگ بندی نافذ ہوتے ہی ختم ہوگئی۔ 18 اکتوبر کو جنگ بندی کی دوسری کوشش کی گئی مگر یہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
آذر بائیجان اور آرمینیا کی افواج اب بھی آمنے سامنے ہیں۔ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے دور کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ علاقائی سطح پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اگر دونوں ممالک نہ مانے تو کسی بڑی قوت کے اس مناقشے میں ملوث ہو جانے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ روس کا آرمینیا سے دفاعی معاہدہ ہے۔ اِدھر ترکی نے آذر بائیجان کا ساتھ دیا ہے۔ اگر عسکری محاذ پر مہم جوئی بڑھی تو بات خطے سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔ روس اور ترکی عسکری سطح پر براہِ راست تو ملوث نہیں ہوں گے مگر شام کی طرح ’’پراکیسز‘‘ کی لڑائی شروع ہو جائے گی۔
اس وقت آذر بائیجان کی پوزیشن مضبوط ہے۔ ترکی کی مدد سے اس نے عسکری محاذ پر غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ اب وہ مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار نہیں۔ کسی بھی سطح پر بات چیت کو موقع دینے سے قبل وہ معاملات کو میدانِ جنگ میں درست کرنا چاہتا ہے۔ وہ 1990 کے عشرے میں ہارے ہوئے علاقے واپس لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ آذر بائیجان کے صدر الہام علیئیف نے مذاکرات کے لیے آرمینیا کو آذری علاقوں سے انخلا کا ٹائم ٹیبل بھی دے دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ آرمینیا کی حکومت آذری علاقوں پر قبضہ کرنے پر معافی بھی مانگے۔ صدر الہام علیئیف میدانِ جنگ کی فتوحات کو اندرونی سیاست میں بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ عالمی برادری کچھ اور چاہتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ آذر بائیجان اور آرمینیا نگورنو کاراباخ کے مسئلے کا فوجی حل تلاش کرنے سے باز آجائیں۔ اس وقت نہ تو انخلا یقینی ہے نہ معافی۔ مذاکرات کے ذریعے طے کیا جانا ہے کہ انخلا کب تک اور کیسے ہوگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مقامی آبادیوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کی جانی ہے۔ جن علاقوں سے فوج واپس بلائی جانی ہے وہاں آرمینیائی نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے۔ ان کے تحفظات ہیں جو دور کیے جانے چاہئیں۔ خطے کا سیاسی تشخص طے کرنے کی کوشش پر بھی رضامندی لازم ہے۔ اگر فریقین ضد پر اڑے رہے تو معاملات مزید بگڑیں گے۔
یہ حقیقت کسی بھی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ فریقین مسلح بھی ہیں اور شجاعت میں بھی کم نہیں۔ دونوں ممالک کے عوام مجموعی طور پر مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔ فریقین کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں۔ ایسے میں زیادہ تباہی ہوسکتی ہے۔ اگر دونوں افواج نے جدید ترین اسلحہ بڑے پیمانے پر استعمال کیا تو بہت بڑا انسانی المیہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔ فریقین نے بظاہر بڑے معرکوں کی تیاری کر رکھی ہے۔ ایسے میں اگر وہ پیچھے نہ ہٹے اور مذاکرات پر راضی نہ ہوئے تو صرف تباہی دونوں کا مقدر بنے گی۔ اس معرکہ آرائی میں کوئی بھی فاتح بن کر نہ ابھرے گا۔ جیتنے والا بھی ہار ہی جائے گا۔
امن اور استحکام یقینی بنانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ ہے مذاکرات۔ صرف بات چیت سے معاملات درست کیے جاسکتے ہیں۔ فریقین کو حقیقی امن کی لگن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جنگ بندی لازم ہے۔ اس کے بعد بحالی کے لیے عالمی برادری کی طرف سے امداد بھی آنی چاہیے۔ متنازع علاقوں میں دونوں طرف کی آبادیوں کو اب ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا وصف اپنانا چاہیے۔ یہ سب کچھ یقینی بنانا بہت بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج سے بہ طریقِ احسن نمٹنا ناگزیر ہے۔
پہلے 1990 میں اور اس کے بعد 1999 میں منسک اور میڈرڈ میں مصالحت سے متعلق کوششیں کی گئیں۔ عالمی برادری نے نگورنو کاراباخ کے قضیے کا سیاسی تصفیہ یقینی بنانے کے حوالے سے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہا۔ اس نکتے پر زور دیا گیا کہ دونوں ایک دوسرے کو رعایتیں دیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ مصالحت کرانے والے ممالک اور عالمی اداروں کی خواہش تھی کہ یہ قضیہ ختم ہوجائے۔ بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ دونوںطرف کے قائدین نے اپنے اپنے عوام کو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہ کیا۔ قائدین نجی طور پر مصالحت اور امن کے خواہاں تھے مگرعوامی ردِعمل کے خوف سے اس خواہش کا کھل کر اظہار نہ کرتے تھے۔ کون جانے کہ یہ خوف بے جا ہو۔ کیا پتا دونوں طرف کے عوام حقیقی امن اور استحکام کی خاطر بہت کچھ قربان اور برداشت کرنے کو تیار ہوں۔
عوام کو امن کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کے ذریعے عوام سے براہِ راست بات کی جاسکتی ہے۔ انہیں زمینی حقیقتوں سے آگاہ کرنا لازم ہے۔ علاقائی و عالمی حالات کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا جانا چاہیے۔ فریقین کے درمیان امن کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے تھک چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب امن کو موقع دیا جائے، کشیدگی ختم کرنے کو ترجی دی جائے۔ دوستی اور مفاہمت کی فضاء پیدا کرنے میں سول سوسائٹی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس سے کسی بھی سمجھتے کے لیے عوام کا موڈ تیار کرنے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فریقین لڑائی جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں ہیں۔ 2016 میں چار روزہ معرکہ آرائی کے موقع پر بھی یہی ہوا تھا۔ اب بھی وہ لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار، بلکہ بضد ہیں۔ ایسا ہی جذبہ جنگ بندی کے لیے بھی دکھانا لازم ہے۔ حقیقی امن کے لیے امن کی شدید خواہش پیدا کیے بغیر چارہ نہیں۔ آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشنیان نے کہا ہے کہ بات چیت پر زور ہونا چاہیے۔ محض لڑائی سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ اور یہ کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو رعایتیں دینے کے لیے تیار ہوں۔ اب آذر بائیجان کو بھی امن کی خواہش کا اظہار کرنا پڑے گا۔ اگر آذر بائیجان کے صدر الہام علیئیف بھی تیار ہوں تو مذاکرات کے لیے ماحول تیار کرنے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے گی۔
نگورنو کاراباخ کے مسئلے کا حل تلاش کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے مضبوط سیاسی عزم اور دانش کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ مل جل کر کام کرنے کی لگن بھی پیدا کرنا ہوگی۔ عوام کو اعتماد میں لینا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ مذاکرات کی کامیابی سے بالآخر انہی کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔
(کیری کیوینا سابق امریکی سفیر ہیں۔)
www.wpr.com
There is no military solution for the Nagorno-Karabakh conflict Only diplomacy will work.
Carey Cavanaugh 19 Oct 2020