امریکی انتخابات سے عالمی سیاست پر اثرات

81

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کا نیا مکین کون ہو گا ؟ دنیا کے طاقتور ترین شخص کا انتخاب آج ہو گا۔ جس کے لیے دونوں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک امیدوار جوبائیڈن کے درمیان سخت مقابلہ جاری ہے۔ امریکا میں صدارتی انتخابات کی گہما گہمی زوروں پر ہے جب کہ 9 کروڑ سے زیادہ امریکی ارلی ووٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2020 کے امریکی انتخابات میں 15 سے 16 کروڑ امریکی شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جو کسی بھی سابقہ انتخابات کے مقابلے میں سب سے زیادہ ٹرن آئوٹ ہو گا۔ واضح رہے کہ ارلی ووٹ میں صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 7 ریاستوں سے برتری حاصل ہے۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق جوبائیڈن کو فلوریڈا، پینسلوانیہ، مشی گن اور شمالی کیرولائینا میں ٹرمپ کے مقابلے میں برتری حاصل ہے۔ انتخابی جائزے کے تحت ایری زونا، ویسکونسن اور ایووا میں بھی جوبائیڈن موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں آگے ہیں۔ برطانوی اخبار کے مطابق پورے امریکا میں جوبائیڈن 43 فیصد کے مقابلے میں 51 فیصد ووٹوں کے ساتھ آگے ہیں۔ لیکن فیصلہ کیا ہوگا وہ حتمی گنتی کے بعد سامنے آئے گا۔
انتخابی مہم بھی آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی ریاستوں میں ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ اتوار کو صدر ٹرمپ نے ریاست مشی گن جب کہ جو بائیڈن نے ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔ مشی گن میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے یورپ میں کورونا وائرس کے باعث دوبارہ لاک ڈاؤن لگانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی معیشت کو کسی صورت بند نہیں کریں گے۔ جو بائیڈن نے فلاڈیلفیا میں ریلی سے خطاب میں صدر ٹرمپ کی کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا۔ جو بائیڈن نے امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ وہ الیکٹورل کالج کے نتائج سے قبل ہی انتخابات کی رات اپنی کامیابی کا اعلان کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ صدر یہ انتخابات چوری کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ایگزیوس کی رپورٹ کو مسترد کیا۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کو ایک خوف ناک عمل قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ اور اس کی گنتی کے عمل میں فراڈ سمیت دیگر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حالیہ جائزوں کے مطابق جو بائیڈن کو سوئنگ ریاستوں وسکونسن اور مشی گن میں برتری حاصل ہے جب کہ پینسلوینیا میں انہیں معمولی برتری حاصل ہے۔ روایتی طور پر یہ ریاستیں اپنا وزن ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف ڈالتی رہی ہیں تاہم 2016 کے انتخابات میں صدر ٹرمپ معمولی تناسب سے یہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ البتہ، جو بائیڈن پرامید ہیں کہ ان انتخابات میں وہ مذکورہ ریاستوں سے کامیابی حاصل کریں گے۔ دونوں امیدوار کئی بار ان ریاستوں کے دورے کر چکے ہیں۔ ٹرمپ نے ہفتے کو پینسلوینیا میں ریلی سے خطاب کیا جب کہ بائیڈن نئے اتوار کو ریاست کے دو مقامات پر انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ ریاست کے چھوٹے شہروں، قصبوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ فلاڈیلفیا میں ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ ریاست پینسلوینیا ان انتخابات میں سب سے اہم کردار ادا کرے گی۔ صدر ٹرمپ نے مشی گن کے علاوہ ریاست آئیوا، شمالی کیرولائنا، جارجیا اور فلوریڈا میں بھی انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ اتوار کو آئیوا میں اپنے حامیوں سے خطاب میں صدر نے کہا کہ ہم نے چار سال قبل یہاں سے شان دار کامیابی حاصل کی تھی۔ قومی سطح پر کیے جانے والے رائے عامہ کے جائزوں میں جو بائیڈن اب بھی صدر ٹرمپ سے آٹھ پوائنٹس آگے ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انتخابی مہم کے آخری روز پیر کو صدر ٹرمپ ریاست شمالی کیرولائنا اور وسکونسن میں پانچ ریلیوں سے خطاب کریں گے۔ جو بائیڈن آخری روز زیادہ تر وقت ریاست پینسلوینیا میں ہی مختلف ریلیوں سے خطاب کریں گے۔ امریکا میں بڑی تعداد میں ووٹرز نے کورونا وبا کے باعث ڈاک کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر لیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک نو کروڑ سے زائد افراد اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔ امریکی عوام جب ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں جو صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے ارکان کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔ جیتنے والے امیدوار کو 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ زیادہ تر امریکی ریاستیں اپنا وزن ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالتی ہیں۔ لیکن تقریباً ایک درجن کے قریب سوئنگ اسٹیٹس انتخابات کے نتیجے پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں کیوں کہ یہ ریاستیں دونوں جماعتوں میں سے کسی کے نام بھی ہو سکتی ہیں۔
امریکا میں پہلی مرتبہ انتخابات میں دھاندلی کے نعروں کا خدشہ سامنے آیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پولنگ ختم ہونے کے فوری بعد وہ انتخابی نتائج چیلنج کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پولنگ ختم ہونے کے فوری بعدبیلٹس کی گتنی روکنے کے لیے اپنے وکلا کے ساتھ قانون کا راستہ اپنائیں گے۔ انہوں نے انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کو خوفناک چیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بعد نتائج کے لیے طویل وقفہ مناسب نہیں ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ووٹرز کو چاہیے کہ وہ انتخابی دن کا انتظار کرنے کے بجائے اپنا ووٹ پہلے ہی کاسٹ کردیں۔ واضح رہے کہ 3 نومبر کو امریکا میں 59 واں صدارتی انتخاب ہے جس میں امریکی صدر ٹرمپ دوسری مرتبہ صدارت کے امیدوار ہیں جب کہ ان کے حریف ڈیموکریٹس کے جوبائیڈن ہیں۔ انتخابی سروے میں جوبائیڈن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری حاصل ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ اس برتری کو ختم کرنے کی سر توڑ کوشش کررہے ہیں۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب سے قبل ہی 24 اکتوبر کو اپنا ووٹ کاسٹ کرلیا۔ خبرایجنسی کے مطابق امریکی صدر نے اپنا ووٹ ریاست فلوریڈا کے ویسٹ پام بیچ میں قائم پولنگ اسٹیشن میں ڈالا اور اس موقع پر انہوں نے ماسک بھی پہن رکھا تھا۔
ماہرین کیا کہتے ہیں
1984ء سے صدارتی انتخابات میں فاتح کی درست پیشگوئی کرنے والے امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر اور تاریخ دان ایلن لِکٹمین موجودہ انتخابات میں ٹرمپ کی شکست دیکھ رہے ہیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکا میں صدارتی انتخاب کی مہم زور و شور سے جاری ہے اور امیدواروں بالخصوص ٹرمپ اور جو بائیڈن کے حامی اپنے اپنے امیدواروں کی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں تاہم اس بار انتخابات کے دن سے پہلے ریکارڈ تعداد اپنے ووٹ کاسٹ کردیئے ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی امیدوار کے لیے اپنی فتح کا اندازہ لگانا مشکل ہو رہا ہے۔ کیٹ آرچر کینٹ کے ساتھ دی مارننگ شو میں معروف تاریخ دان ایلن لِکٹمین نے اپنے وائٹ ہاؤس کی 13 چابیاں کے پیمانے کی بنیاد پر بتایا کہ معیشت کی مضبوطی، اہمیت کا حامل عنصر، مقابلوں، پالیسیوں میں ردوبدل، اسکینڈلز، معاشرتی بدامنی اور آنے والے چیلینجر سے آشنائی کی بناء پر ٹرمپ کو کم نمبر ملتے ہیں اور وہ فاتح نہیں ہوسکتے۔ ایلن لکٹمین نے مزید بتایا کہ اہم چیز جو 2016 میں ٹرمپ کو موجودہ ٹرمپ سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ تھی کہ اس بار ٹرمپ برسر اقتدار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرمپ اپنے ریکارڈ پر چل رہے ہیں۔ اس کے پاس 2016 میں دفاع کرنے کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ وہ جو چاہتا تھا کہہ سکتا تھا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن انہوں نے موجودہ صدر کی حیثیت سے زبردست غلطیاں کی ہیں جو ان کی ہار کا سبب بن سکتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن نے، صدارتی انتخاب سے قبل کے آخری اتوار کے روز، سخت مقابلے والی ریاستوں میں انتخابی ریلیاں نکالیں۔ ٹرمپ نے بعض ریاستوں کے اس منصوبے کا ذکر کیا جس کے مطابق ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں پر انتخابات کے روز تک کی ڈاک کی مہر ہونے کی صورت میں، وہ ووٹ انتخابات کے بعد پہنچنے پر بھی قبول کیے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا ’ہمیں 3 نومبر کو انتخاب کا نتیجہ معلوم ہو جانا چاہیے۔ 3 نومبر کی شام تک‘۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ بائیڈن کے کیمپ نے ڈاک کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں کی حتمی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا تھا، جب کہ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انتخاب کا دن ہی حتمی میعاد ہونا چاہیے۔ اس معاملے پر ملک بھر میں مقدمے دائر کیے گئے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کو جھٹکا
سپریم کورٹ نے ٹیکساس میں سوا لاکھ ووٹ مستردکرنے کی ری پبلکن کی درخواست رد کردی جب کہ یہ ووٹ ڈرائیوتھرو مقامات پر کاسٹ کیے گئے تھے۔ ادھر امریکی صدرٹرمپ نے 3 نومبر کے انتخابات میں کامیابی ملنے کا دعویٰ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جارجیا اور فلوریڈا میں بر تری حا صل ہے، کہا جا رہاہے کہ ٹیکساس میں بڑا سخت مقابلہ ہے مگر میں ایسا نہیں سمجھتا، 4 سال پہلے بھی انہوں نے یہی کیا تھا اور میں جیت گیا تھا۔ دوسری جانب ڈیموکریٹ صدارتی امیدوارجو بائیڈن نے کہا کہ انتخابات میں ووٹرز ایسے صدر کا پتا صاف کر سکتے ہیں جو قوم کی حفاظت میں ناکام رہا اور نفرت کو پر وان چڑھایا۔
الزامات کی سیاست امریکا میں بھی
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریف جوبائیڈن کو کرپٹ سیاستدان قرار دے دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکا میں اقتدار حاصل کرنے کی جنگ آخری مراحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشی گن میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی امیدوار جوبائیڈن کو کرپٹ سیاستدان قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوبائیڈن امریکا اور دنیا کو ایک مضحکہ خیز جنگ میں ڈبو دے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں جوبائیڈن کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنا چاہتا ہوں۔ جوبائیڈن ہوشیار آدمی نہیں ہے وہ ڈمی کے نام سے جانا جاتا ہے اور اگر وہ جیتا تو چین امریکا کا مالک بن جائے گا۔ امریکی صدر نے جوبائیڈن کے ماسک پہننے کے بعد ان کے سن گلاسز پر بھی تنقید کر ڈالی۔ دوسری جانب امریکی صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ وہ صدر منتخب ہونے کے بعد اسلحہ پر پابندی لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلحہ سے متعلق اصلاحات لاتے ہوئے ہائی کپیسٹی ہتھیاروں پر پابندی عائد کروں گا اور اسلحہ سے متعلق اصلاحات لاؤں گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جوبائیڈن نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کورونا کو کنٹرول کرنے کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد امریکی کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائرس کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایپ کو چھوڑ دے لیکن میں ایپ کو نہیں چھوڑوں گا۔ اب وقت ایگیا ہے کہ جمہوریت کے لیے کھڑا ہوا جائے۔ جوبائیڈن نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں موسمیاتی تبدیلی انسانی وجود کے لیے خطرہ ہے تاہم ڈونلڈ ٹرمپ یہ سوچتے بھی نہیں کہ یہ مسئلہ بھی کہ نہیں۔
امریکی انتخابات میں موسمیاتی تبدیلی کا
رخ بھی متعین ہو گا، ماحولیاتی ماہرین

ماحولیاتی ماہرین نے پیشگوئی کی ہے کہ امریکی انتخابات کے نتائج موسمیاتی تبدیلی میں مثبت یا منفی اثرات کا باعث بنیں گے۔ غیرملکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق انتخابی دن جو کچھ ہوگا اس سے کچھ حد تک اس بات کا تعین ہوجائے گا کہ دنیا کی آب و ہوا کتنی زیادہ گرم اور آلودہ ہوگی۔ صدارتی انتخاب کے اگلے ہی دن ہی امریکا موسمیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے 2015 کے پیرس معاہدے سے باضابطہ طور پر دسبردار ہوجائے گا۔ واضحر ہے کہ ایک سال قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا تھا کہ وہ ماحولیات سے متعلق عالمی معاہدے سے دستبردار ہوجائے گا۔ امریکا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے ملک ہے۔ سابق نائب

صدر اور صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے پیرس معاہدے میں ملک کو فوری طور پر واپس لانے کا وعدہ کیا ہے جس کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ سائنسدانوں اور ماحولیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر امریکا پیرس معاہدے سے دستبردار ہوگیا تو دیگر کچھ ممالک بھی معاہدے سے منکر ہوجائیں گے تو اس کے نتائج وسیع تر ہوں گے۔ کیلیفورنیا میں بریک تھرو انسٹی ٹیوٹ کے ماہر ماحولیات زیک ہاسفادر نے کہا کہ اگر دنیا پیرس معاہدے کے عمل سے دور ہوتی ہے تو شدید گرمی کی لہر پیدا ہوگی۔ اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے روب جیکسن نے کہا کہ اگر امریکا ماحولیات کے پیرس معاہدے سے خود کو دستبردار کرلیتا ہے آج کے بچے بڑی تبدیلیوں کو دیکھیں گے ہم میں سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی ہوگی۔ جرمنی کی ویگنینگن یونیورسٹی کے آب و ہوا کے سائنس دان نکلاس ہوہنی نے کہا کہ امریکای انتخابات بین الاقوامی ماحولیات کی پالیسی کے لیے ایک اہم مقام ثابت ہوسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ گرمی کی لہروں، گلوبل وارمنگ، جنگل میں لگی آگ، طوفان، خشک سالی اور طوفان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے تناظر میں اقوام متحدہ کے موسم کے حوالے سے قائم
ادارے نے خبردار کیا تھا کہ جن لوگوں کو بین الاقوامی سطح پر انسانی مدد کی ضرورت ہے ان کی تعداد 2018 میں 10 کروڑ 80 لاکھ کے مقابلے میں 2030 تک 50 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی اسٹیٹ آف کلائیمٹ سروسز 2020 کی رپورٹ 16 بین الاقوامی ایجنسیز اور مالیاتی اداروں نے مرتب کی تھی اور اس رپورٹ میں حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رقم اس تباہی کے حوالے سے خبردار کرنے والے نظام کے لیے استعمال کریں تاکہ ممالک کی ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت اور ردعمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ واضح رہے کہ 3 نومبر کو امریکا میں صدارتی انتخاب کے دن سے قبل ہی لاکھوں امریکی پہلے ہی ووٹ دے چکے ہیں لیکن ہر ریاست کے پاس اس کے مختلف قوانین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان ووٹوں کی گنتی بیلٹ باکس کے ساتھ شمار کی جائے گی۔ رواں برس ہونے والے انتخاب میں امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن مدمقابل ہیں، انتخاب میں دیگر آزاد امیدوار بھی شامل ہیں لیکن دونوں سیاسی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
سنگین الزام گھٹیا زبان
گزشتہ روز امریکی ریاست مشی گن میں انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے ٹرمپ کو پیوٹن کا پالتو کتا کہہ دیا تھا، بائیڈن نے کہا ٹرمپ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے پالتو کتے کی طرح کام کرتا ہے، پیوٹن نے عراق میں امریکی فوجیوں کے سر کی قیمت مقرر کی تھی، اور ڈونلڈ ٹرمپ روسی صدر کو للکارنے میں خوف کا شکار تھے۔
واشنگٹن – بندر الدوشی
امریکا میں صدارتی انتخابات کا وقت قریب آنے کے ساتھ تجزیہ کاروں نے تشویش ناک منظر نامے پیش کرنا شروع کر دیے ہیں۔ ان میں نمایاں ترین منظر نامہ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسری مدت کے لیے منتخب ہو جانا، بائیں بازو والوں کی جانب سے بھرپور احتجاج اور دارالحکومت واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس پر دھاوا بولنا شامل ہے۔ ماہر مائیکل والر نے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک سیمینار کے دوران کہا ہے کہ وفاق کے ذمے داران کو واشنگٹن کی سڑکوں پر پرتشدد ٹولیوں کا مقابلہ کرنے کے واسطے تیاری رکھنا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار جیتنے کی صورت میں وائٹ ہاؤس پر دھاوے اور حملے کی کوشش دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ والر کے مطابق ان بلوائیوں سے نمٹنے کے لیے کم از کم ہزاروں سیکورٹی اہل کاروں کو تیار رکھنا ہو گا تا کہ انہیں وائٹ ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکا جا سکے۔ امریکی تجزیہ کار نے واشنگٹن میں حکومت مخالف احتجاج کے انعقاد کے واسطے استعمال ہونے والے Black Lives Matter اسکوائر کے علاقوں کا، ، ، یورپ اور مشرقی ایران جیسے علاقوں سے موازنہ کیا۔ والر نے کہا کہ واشنگٹن کی خاتون میئر نے کچھ عرصے سے وائٹ ہاؤس کی شمالی جانب سے لے کر لیوائٹ پارک کی دوسری جانب تک مرکزی راستے کو سواریوں کے لیے بند کر دیا ہے۔ یہ رقبہ فٹبال کے تقریبا تین گراؤنڈز کے برابر ہے اور ابھی تک کنکریٹ کی رکاوٹوں کے ذریعے بند رکھا ہوا ہے۔ والر نے مزید کہا کہ صدر ہونے کی حیثیت سے ٹرمپ کا اولین فرض ہے کہ وہ ایوان صدر کی حفاظت کریں۔ ایسے میں جب کہ سخت گیر گروپوں نے وائٹ ہاؤس کے گھیراؤ اور نذر آتش کرنے کی دھمکیاں دے رکھی ہیں، صدر کو اس معاملے کے ساتھ سنجیدگی سے نمٹنا ہو گا۔ اس کے علاوہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی انتظامیہ نے طلبہ سے کہا ہے کہ وہ ایک ہفتے کا راشن جمع کر لیں ۔ یعنی کچھ ہونے والا ہے۔ خوبصورت عمارتوں کے شیشوں کولکڑی کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے ۔
ایک سوال ساری دنیا میں کیا جا رہا ہے کہ امریکی انتخابی نتائج افغانستان ،مشرق وسطیٰ ، اسرائیل ، چین اور پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی لائیں گے ۔ اس پر ماہرین کا کہناہے کہ ایسا ممکن نہیں لگتا ۔ امریکی پالیسیوں میں تسلسل رہے گا ۔ سیاسی باتیں3نومبر کو ختم ہو جائیں گی ۔