عالم اسلام کا احتجاج، صدرِ فرانس کی قلابازی

394

امیر ِ جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ تاریخ ِ اسلام اس بات سے بھری پڑی ہے کہ غیر مسلموں کی جانب سے پیغمبر ِ اسلام کی تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوںکے خلاف پہلے مسلمان عوام اور اس کے بعد اسلامی ممالک کے حکمران آواز بلند کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ فرانسیسی صدر کی جانب سے پیغمبر ِاسلام کی تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوں پر ماکروں کی بکواس کے خلاف پہلے عام مسلمانوں نے دنیا بھر میں آواز بلند کرتے ہوئے بہت بڑے پیمانے پر مظاہروں کا انعقاد کیا۔ فرانسیسی صدر کی جانب سے حال ہی میں پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز خاکوں اور فرانسیسی سیکولرازم کے دفاع کے تناظر میں ترکی کے بعد پاکستان اور بنگلا دیش سمیت کئی مسلمان ممالک میں شدید ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کی جانب سے اعلان کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں اور سعودی عرب میں بھی مظاہرے ہوئے مظاہرین نے فرانسیسی صدر کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بہت بڑے پیمانے پر فرانس کی مصنوعات کا بائیکا ٹ کیا۔ سب سے بڑا مظاہرہ بنگلا دیش ڈھاکا بیت المکرم مسجد کے باہر کیا گیا اور یہ مظاہرہ گھنٹوں جاری رہا اور اس کے بعد عالم اسلام کے حکمرانوں کو بھی ہو ش آگیا۔ دارالحکومت ڈھاکا میں ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کیے جن میں ان کا مطالبہ تھا کہ فرانس کی جانب سے خلاف اسلام سخت گیر موقف اپنانے پر فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے۔

مظاہرین نے ماکروں کا پتلابھی جلایا۔ تاہم مقامی پولیس نے مظاہرین کو فرانسیسی سفارتخانے تک پہنچنے نہیں دیا۔ پولیس کے اندازوں کے مطابق تقریباً 40ہزار اور غیر جانبدار ذرائع کے مطابق ایک لاکھ افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا جو بنگلادیش کی بڑی اسلام پسند سیاسی جماعتوں میں سے ایک اسلامی جماعت اندولان بنگلا دیش نے منعقد کیے تھے۔ اسلامی اندولان بنگلا دیش کے رہنما عطا الرحمان نے اپنی تقریر میں کہا کہ فرانسیسی صدر ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہیں جو شیطان کی عبادت کرتے ہیں۔ انہوں نے بنگلا دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کر دیں۔ ایک اور رہنما نصار الدین نے کہا کہ فرانس مسلمانوں کا دشمن ملک ہے۔ جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ان مظاہروں میں پُر تشدد مظاہرے بھارت کے شہر بھوپال میں ہوئے جہاں بھارتی پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس استعمال کیا اور مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ پولیس نے متعدد مرتبہ مظاہرین کو گرفتار بھی کیا لیکن بعد میں ان کوچھوڑدیا گیا۔
پاکستان میں کراچی سمیت متعدد شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں صدرِ فرانس کے پوسٹرز اور پتلے جلائے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فرانسیسی اشیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ پاکستانی ٹویٹر پر مسلسل فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے اور #Macron Apologize To Muslims ٹرینڈ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ترکی، پاکستان اور بنگلا دیش کے علاوہ ایران، اردن، کویت، لیبیا، شام اور غزہ کی پٹی پر بھی احتجاج کیا گیا ہے۔ قطر میں ایک بڑی تجارتی یونین نے اعلان کیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں اپنی دکانوں سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا رہے ہیں۔ اردن، قطر اور کویت میں کچھ سپر مارکیٹوں سے فرانسیسی مصنوعات کو پہلے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر فرانس میں بننے والی بالوں اور خوبصورتی سے متعلق مصنوعات اسٹورز میں نظر نہیں آ رہیں۔ عمان کی ایک مارکیٹ میں لگے اشتہار پر لکھا ہے کہ فرانسیسی اشیا کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے طیب اردوان کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے عالمی مسلم رہنماؤں کو اپنے خط میں لکھا ہے کہ: ’’آج مسلم امہ میں مغربی دنیا خاص کر یورپی ممالک کی جانب سے اسلامو فوبیا اور پیغمبر ِ اسلام کی تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں پر خدشات اور بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ چند یورپی رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات اور قرآن کی بیحرمتی سے متعلق واقعات اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ یورپی ممالک، جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں، میں اسلامو فوبیا میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یورپ میں مساجد بند کر دی گئی ہیں، مسلمان خواتین سے ان کی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی آزادی بھی چھینی جا رہی ہے حالانکہ وہاں پادری اور راہبائیں اپنا مذہبی لباس پہنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام اور ڈھکے چھپے انداز میں تفریق دیکھنے میں آتی ہے۔ تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوںکے سلسلے میں ان ممالک میں رہنماؤں کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو پیغمبر ِ اسلام اور قرآن سے کتنی محبت اور لگاؤ ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہی وجہ ہے کہ اس کے جواب میں خطرناک ردِ عمل
دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے آزادی اظہار رائے سے متعلق ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ آزادی بغیر حدود و قیود کے نہیں ہو سکتی اور اس سے مختلف کمیونٹیز (برادریوں) کی بلاوجہ اور جب دل چاہے دل آزاری نہیں کی جانی چاہیے۔ فرانس کے جریدے چارلی ہیبڈو میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کینیڈا کے وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم ہمیشہ آزادی اظہار رائے کا دفاع کریں گے‘۔
ہمارے یہاں اور دنیا بھر کے سیکولر مسلمان یہ کہتے سنے جاتے ہیں ’’بائیکاٹ سے کیا ہوتا ہے‘‘ اب یہ سارے فلسفی خود دیکھ لیں کہ معمولی نوعیت کے بائیکاٹ نے بھی فرانس کے صدر کو مجبور کر دیا ہے اور ’’مسلم ممالک پر ان بیانات کو غلط انداز میں پیش کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ انہوں نے کہا: ’میرے خیال میں میرے الفاظ کے بارے میں کہے جانے والے جھوٹ اور انہیں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے سبب اس طرح کا رد عمل سامنے آیا۔ اس سے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ میں ان خاکوں کی حمایت کرتا ہوں۔ وہ خاکے سرکاری منصوبے کا حصہ نہیں تھے لیکن آزاد اخبارات میں دیے گئے تھے جو حکومت سے وابستہ نہیں ہیں‘‘۔
اب تک اسلامی ممالک میں بائیکاٹ صرف مسلمان عوام نے کیا ہے اگر سرکاری سطح پر یہ سب کچھ کیا جاتا تو آج صورتحال کچھ اور ہو تی۔ غیرجانبدار اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان نے نیوی کے لیے 15ہیلی کاپٹر کا سودا فرانس سے منسوخ کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کا اعلان نہیں کیا گیا۔ عالم اسلام سے حکومتی سطح پر معمولی سا دباؤ بھی فرانس پر ڈالا گیا تو دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبان کھولنے اور ان پر ظلم کرنے سے روک سکتا ہے۔