قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس بدنیتی قرار، اختلافی نوٹ

248

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مقبول باقر کے اختلافی نوٹ سامنے آگئے جس میں ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا گیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ 65 صفحات پر مشتمل ہےجب کہ جسٹس مقبول باقر کا اختلافی نوٹ 68 صفحات پر مشتمل ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نےا ختلافی نوٹ میں لکھا کہ شکایت کنندہ کی شکایت کو پذیرائی دینے کے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، صدرمملکت کو ریفرنس کو منظور کرکے آگے بھیجنے کا اختیار نہیں تھا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق شکایت کنندہ کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ کااسپینش نام معلوم ہونا حیران کن ہے،شکایت کنندہ وحیدڈوگرکا لندن جائیدادوں تک رسائی حاصل کرنا بھی حیران کن ہے،شہزاد اکبر نے نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر کو اس سب کا کیسے معلوم ہوا،وفاق کا موقف ہے کہ صحافی کو اس کا سورس بتانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، وفاق کا یہ موقف درست نہیں، شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے اپنی تحقیقاتی خبر کسی اخبار میں شائع نہیں کی، حید ڈوگر کا اسٹیٹس ایک شکایت کنندہ کا تھا، ایک صحافی کا نہیں،  وحید ڈوگر نے جج کے خلاف ایکشن کیلئے شکایت کا اندراج کرایا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ شکایت کنندہ کو شکایت کیلئے معلومات فیڈ کی گئیں جس کسی نے بھی وحید ڈوگر کو یہ معلومات فیڈ کیں وہ کہانی کااصل کردارہیں، شہزاد اکبراورایسیٹ ریکوری یونٹ کی ٹیم کیخلاف فوجداری کارروائی کی جائے، غیرقانونی طورپرمعلومات دینےپرنادرا اورایف بی آر حکام کیخلاف بھی کارروائی کی جائے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی معلومات لیک کرنے کا معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا جائے۔

انہوں نے لکھا کہ  صدرمملکت نے سمری بھیجنے سے پہلے دماغ استعمال نہیں کیا، کونسل کسی بھی جج کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے میں آزاد ہے، ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی، ایف بی آر یا کونسل کی جانب کارروائی سے گریزکا موقف کسی فریق نے نہیں اپنایا، اداروں کو اختیارات نہ ہونے پرسپریم کورٹ اپنے حکم سے اختیارات نہیں دے سکتی، ایف بی آر کی رپورٹ کونسل کے سامنے جج کے خلاف ایک نئی شکایت ہوگی، ایف بی آرکو آرٹیکل 209 کے تحت صدرکو اپروچ کرنے کا اختیار نہیں، وفاقی حکومت یا اس کے ادارے جج کے کنڈکٹ پرکونسل کو شکایت نہیں کرسکتے، جسٹس عیسیٰ کے خاندان کو بھی شہریوں کی طرح آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔

جسٹس مقبول باقر کا اختلافی نوٹ

جسٹس مقبول باقر نے اختلافی نوٹ میں لکاھ کہ ریفرنس کالعدم ہونےپر جائیدادیں اورٹیکس معاملات عوامی مفاد کے زمرے میں نہیں آتے، ایف بی آرقوانین کیمطابق2004تا2013خریدی گئی جائیدادوں کےذرائع آمدن کی تحقیقات نہیں ہوسکتیں۔