پھر کیا تم نے کبھی اْس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اْسے گمراہی میں پھینک دیا اور اْس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اْس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اْسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو‘‘ در حقیقت اِس معاملہ میں اِن کے پاس کوئی علم نہیں ہے یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔ (سورۃ الجاثیہ: 23تا24)
سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ایک آدمی نے یہ ذکر کیا: اَللّٰہْ اَکبَرْ کَبِیرًا وَالحَمدْ لِلّٰہِ کَثِیرًا وَسْبحَانَ اللّٰہِ بْکرَۃً وَاَصِیلًا، آپ نے فرمایا: یہ کلمات کس نے کہے؟ اس آدمی نے کہا: جی میں نے، آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں ان کلمات کی طرف دیکھ رہا تھا، یہ چڑھے جا رہے تھے، یہاں تک کہ اس کے آسمان کے لیے دروازے کھول دیے گئے۔ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب سے میں نے رسول اللہؐ کی یہ حدیث سنی، اس وقت سے میں نے یہ کلمات ترک نہیں کیے۔ (مسند احمد)