صرف لاک ڈائون نہیں اقدامات بھی ضروری ہیں

233

پاکستان عالمی وبا کا مقابلہ کرنے میں کامیابی کے اعتبار سے 28 ویں نمبر پر ہے اور بہت سے ممالک سے بہتر پرفارمنس پیش کر چکا ہے۔ کئی ممالک سے پہلے وبا پر قابو پایا۔ مریضوں و ہلاکتوں کے اعتبار سے بھی پاکستان کی پوزیشن بہتر ہے۔ ایک مرتبہ پھر دنیا میں وبا کی لہر نے سر اٹھایا ہے۔ ساری دنیا میں بیماری کو بیماری سمجھا گیا ہے اور اس پر قابو پانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ پاکستان ایشیائی اور ترقی پذیر ملکوں میں ہے یہاں کے باشندوں کی قوت مدافعت یورپ اور امریکا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان کا مسئلہ اس اعتبار سے عالمی وبا نہیں بلکہ یہاں پینے کا صاف پانی، غذائی قلت یا صحت بخش غذا کی عدم دستیابی، ماحولیاتی آلودگی، صحت کی سہولیات کا فقدان اور حکومتوں کی عوام کی جانب سے بے اعتنائی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے ہماری حکومتیں توجہ بھی نہیں دیتیں اور ان کی ترجیحات میں بھی یہ نہیں ہیں۔ بہرحال اس وقت دنیا میں نمبر ایک مسئلہ یہ عالمی وبا بنی ہوئی ہے اور اس سے نمٹنے کا نمبر ایک طریقہ لاک ڈائون تجویز کیا گیا ہے۔ اگر لاک ڈائون کے حقیقی معنی دیکھے جائیں تو اس پر یا تو چین نے عمل کیا ہے یا اس کا تجربہ رکھنے والوں میں اسرائیل اور بھارت ہیں جنہوں نے جبر کے ذریعے لاک ڈائون کو کامیاب بنایا۔ ورنہ امریکا، جرمنی، اٹلی فرانس وغیرہ میں ایک حد کے بعد لوگوں نے لاک ڈائون کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ احتجاج ہوئے حکومتوں کو فیصلوں پر نظرثانی کرنی پڑی۔ کینیڈا اور اکا دکا ممالک میں لاک ڈائون بھی کیا گیا اور لوگوں کو گھر بٹھا کر پیسے دیے گئے۔ امریکا سے ملنے والی سرحد مکمل بند کر دی اور چند ماہ میں کینیڈا کو محفوظ ملک بنا دیا۔ امریکا میں ایک دن میں لاکھوں مریض سامنے آئے اور کینیڈا میں یہ رفتار دس بیس سے زیادہ نہیں تھی۔ اب وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کاروبار کھلا رہے گا یعنی سندھ کی حکومت اور وفاق کے درمیان تنازع ہونے والا ہے۔ سندھ حکومت تو پہلے ہی لاک ڈائون پر تلی بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے لاک ڈائون کا نشانہ کراچی ہے اور سختی بھی یہیں ہوتی ہے۔ گزشتہ لاک ڈائون میں مساجد اور مذہبی اجتماعات پر بھی زیادہ فوکس کیا گیا تھا اور سب سے زیادہ تعاون بھی مذہبی حلقوں نے کیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے اس فیصلے کی حمایت تو کی جانی چاہیے کہ لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے لیکن اس کا متبادل کیا ہے اور کیا وجہ ہے کہ عالمی وبا کے حوالے سے پورے ملک میں ایک پالیسی نہیں ہے۔ وفاق لاک ڈائون نہ کرنے کا کہتا ہے، سندھ لاک ڈائون کر دیتا ہے اور اس کی کوئی مدت اور حد بھی نہیں ہوتی۔ لاک ڈائون 14 دن یا اکیس دن کرکے علاقہ کو کلیئر کر دینا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک ہی علاقے کو بار بار بند کیا گیا۔ سندھ میں حکومت کا نشانہ کراچی اور اس کا کاروبار ہی تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے نہ صرف کاروبار جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے بلکہ وزیراعظم نے وبا سے نمٹنے کے لیے عوام سے جو اپیل کی ہے وہ یہ ہے کہ عوام گھروں سے باہر ماسک پہنیں۔ یہ کام بہت اہم ہے اس کی اہمیت کا اندازہ کراچی کی حالت دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔حالت یہ ہے کہ پورے ملک میں ماحولیاتی حالات ایسے ہیں کہ ہر جگہ ہی ماسک پہننے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت سارا سال رہتی ہے۔ حال ہی میں چیف جسٹس پاکستان نے کے پی کے کا دورہ کیا اور پشاور کے بارے میں کہا کہ سوائے دھول اور مٹی کے پورے شہر میں کچھ نظر نہیں آیا۔ انہوں نے بھی ماسک کی اہمیت کا اظہار کیا۔ حال ہی میں ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں ایک برس کے دوران پانچ لاکھ بچے ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے موت کا شکار ہو گئے۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی اس سے زیادہ افراد کی موت کا سبب بنی ہے اور جو لوگ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پہلے ہی سانس کی بیماری کا شکار ہوں وہ عالمی وبا کا بھی آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں۔ کراچی کی حالت یہ ہے کہ شہر کی کوئی سڑک اس قابل نہیں جس پر مسلسل ایک رفتار سے گاڑی چلائی جا سکے۔ لے دے کر چند سڑکیں ضرورتاً ٹھیک کر دی گئی ہیں ان میں شاہراہ پاکستان، یونیورسٹی روڈ، شارع فیصل وغیرہ شامل ہیں لیکن ان پر بھی روشنی غائب رہتی ہے۔ باقی شہر کی چھوٹی بڑی سڑکوں پر سڑک کم اور گڑھے زیادہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے دھول مٹی اڑتی ہے جو آلودگی کا سبب بن رہی ہے۔ عمران خان کراچی کا دورہ تو کریں اپنی ٹیم میں کوئی معقول آدمی (اگر ہے تو) تلاش کریں جو کراچی کی اصل صورتحال سے انہیں آگاہ کرے۔ صنعتوں کے شہر میں سڑکیں، بجلی، امن و امان، پانی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نہیں تو تعمیراتی صنعت کے لیے رعایت، رعایتی بجلی اور لاک ڈائون نہ کرکے کاروبار کھلا رکھنے کا اعلان کس کام کا۔کراچی کی آبادی ہی کم کر دی گئی، مردم شماری کا نقصان اس شہر کو اور اس کے نتیجے میں صنعتوں کو بھی ہو رہا ہے۔ آدھی آبادی کے فنڈز میں کرپشن بھی ہے اور ترقیاتی کام بھی اور ہر کام میں کرپشن الگ۔ ضرورت بہرحال اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت اور خصوصاً سندھ سمیت تمام صوبوں کی حکومتیں وبا سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اور متفقہ اقدامات کریں اس معاملات کو تو سیاست نہ بنایا جائے۔