واشنگٹن ( مانیٹرنگ ڈیسک+خبرایجنسیاں) امریکاکے صدارتی انتخاب ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن نے وائٹ ہاؤس کی جانب بڑی چھلانگ لگادی ہے۔ انہوں نے اہم سوئنگ ریاستوں میشی گن اور وسکونسن میں بھی کامیابی کے جھنڈے لہرادیے ہیں جہاں 2016ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ کامیاب رہے تھے۔اس طرح جوبائیڈن 264الیکٹورل حاصل کرکے اپنی فتح سے صرف 6الیکٹورل ووٹس کی دوری پر ہیں۔ اگر ان کی پارٹی صرف ریاست نیواڈا سے جیتنے میں بھی کامیاب ہوگئی تو وہاں کے 6 الیکٹورل ووٹس کے ساتھ بائیڈن حتمی طور پر فاتح قرار پائیں گے۔ ابھی تک 5ریاستوں کے نتائج آنا باقی ہیں جن میں کئی لاکھ ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ تقریباً 14 کروڑ ووٹوں کی گنتی مکمل ہوچکی
ہے جو خود امریکی تاریخ میں صدارتی انتخاب کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اب ووٹوں کی گنتی بھی اختتامی مرحلے پر داخل ہوچکی ہے اور اگلے چند گھنٹوں کے دوران تمام ریاستوں سے غیر سرکاری نتائج کا اعلان کردیا جائے گا۔دوسری جانب موجودہ امریکی صدر اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس حاصل کرسکے ہیں۔ اب ان کی جیت کا مکمل دار و مدار سوئنگ اسٹیٹس پر ہے۔ البتہ امریکی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ٹرمپ کو سوئنگ اسٹیٹس سے بھی تمام الیکٹورل ووٹس مل جائیں تب بھی وہ مجموعی طور پر 268 الیکٹورل ووٹ ہی حاصل کرپائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے پوسٹ کے ذریعے بھیجے گئے ووٹوں کی گنتی رکوانے کے لیے 3امریکی ریاستوں میں مقدمے دائر کر دیے ہیں۔ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اہم ریاستوں وسکونسن اور میشی گن میں جوبائیڈن کے ان سے آگے نکل جانے کے بعد ‘کئی اہم ریاستوں’ میں ان کی لیڈ ‘جادوئی انداز میں غائب’ ہو گئی۔انہوںنے لکھا ہے کہ گزشتہ رات میں کئی اہم ریاستوں میں کئی موقعوں پر بھرپور انداز میں جیت رہا تھا، تقریباً تمام مقامات پر ڈیموکریٹ امیدوار کو کنٹرول کر لیا تھا۔،اس کے بعد جب ووٹوں کے اچانک سامنے آنے والے ڈھیر گنے گئے تو میری سبقت یکے بعد دیگرے جادوئی انداز میں غائب ہو گئی، یہ بہت عجیب بات ہے۔ میشی گن میں جو بائیڈن کی جیت کے بعد ٹرمپ کے وکیل نے کیس فائل کردیا ہے تاہم ٹرمپ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نقصان ہو چکا ہے، اب اس کا کیا فائدہ؟ ہمارے نظام اور صدارتی انتخاب کی ساکھ کو نقصان پہنچ چکاہے۔صدر ٹرمپ الیکشن میں دھاندلی کی باتیں کرتے ہوئے غصے کا اظہار کررہے ہیں اس کے برخلاف بائیڈن نے خود کو پرسکون انداز میں پیش کیا ہے۔جو بائیڈن گرچہ اپنی فتح کے لیے بہت پرامید ہیں لیکن انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ جب تک مکمل نتائج نہیں آجاتے، تب تک وہ اپنی فتح کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔حالیہ امریکی صدارتی انتخاب میں عوامی جوش و خروش بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن وہ پہلے صدارتی امیدوار بن چکے ہیں جنہوں نے 7 کروڑ سے زیادہ عوامی ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن ٹرمپ بھی 6 کروڑ 86 لاکھ ووٹ حاصل کرچکے ہیں۔ اس طرح دونوں صدارتی امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں صرف 2.4 فیصد کا فرق ہے۔علاوہ ازیں دھاندلی کے الزامات کے بعد امریکا بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ،متعدد ریاستوں میں حالات کشیدہ ہیں،پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں اورسیکڑوں افرادکوگرفتار کرلیا گیاہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق نیویارک ، کیلیفورنیا، شمالی کیرولائنا، پورٹ لینڈ، اوریگون اور لاس اینجلس میں مظاہرے ہو ئے۔ نیویارک، مین ہیٹن میں مظاہرین اور پولیس کی جھڑپیں ہوئی ہیں،واشنگٹن میں ٹرمپ مخالف امریکیوں کے احتجاج کے دوران وائٹ ہائوس کے باہر ٹرمپ کے حامیوں اور بلیک لائف میٹرز کے درمیان جھڑپیں ہوئیں،سیاٹل میں بلیک لائیومیٹرز نے احتجاجی مارچ کیا ۔ادھر جوبائیڈن کے حامی ٹرمپ سے وائٹ ہائوس خالی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مختلف شہروں میں جوبائیڈن اور ٹرمپ کے حامی سڑکوں پر ایک دوسرے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ریاست میشی گن میں ٹرمپ کے حامیوں نے احتجاج کے دوران پولنگ اسٹیشن پر دھاوا بول دیا اور ووٹوں کی گنتی بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ ہوسٹن میں بھی ووٹرز سڑکوں پر نکل آئے اور ایک ایک ووٹ کی گنتی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ فاشسٹ امریکا کو قبول نہیں کرتے۔