افغانستان میں پُرتشدد کارروائی اور بھارت اشرف غنی اتحاد

341

کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے شرکاء پر 2نومبر کو مسلح افراد نے حملہ کیا جس سے کم از کم 25 طلبہ ہلاک ہو گئے۔ کتاب میلے میں جہاں مسلح افراد نے حملہ کیا وہاں چند منٹ بعد ایرانی سفیر کو شرکت کرنا تھی۔ اس حملے کے بعد افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا ہے کہ: ’’افغانستان اور تعلیم کے دشمن کابل یونیورسٹی میں داخل ہو گئے ہیں‘‘۔ افغانستان میں جنوری 2020ء سے ستمبر تک چھ ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ یونیورسٹی پر حملے کے چند گھنٹے بعد تک کی صورت حال یہ تھی کہ وزارت داخلہ کے مطابق سیکورٹی دستے بہت محتاط انداز میں حملے کی جگہ کی طرف بڑھ رہے تھے، تاکہ کیمپس کی حدود میں موجود طلبہ کی زندگیاں خطرے میں نہ پڑ جائیں۔ افغان طالبان نے اس حملے کے فوری بعد کہہ دیا کہ ان کا اس کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماضی میں افغانستان کے مختلف شہروں میں سال ہا سال تک بڑے اور اہم تعلیمی اداروں پر داعش کے انتہا پسند گروپ خونریز حملے کرتے رہے ہیں اور اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے کہ داعش نے ذمے داری قبول کر لی۔
رواں سال فروری میں ’’امریکا افغان امن معاہدے‘‘ کے بعد افغانستان میں جنگ بندی ہوئی اور سکون کا دور شروع ہوگیا تھا لیکن امریکی وزارت دفاع کو صدر کے فیصلوں سے اختلاف تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بار بار یہی معلوم کرتے تھے کہ امریکا افغانستان میں گزشتہ 19 سال سے جنگ کیوں لڑ رہا ہے اور کیا وجوہات ہیں کہ یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی؟ جس کا جواب یہ دیا جارہا تھا کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ہونے والے حملوں میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا نے ان حملوں کی ذمے داری القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن پر عائد کی تھی۔ حملوں کے وقت اسامہ بن لادن افغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان نے اسامہ کی گرفتاری اور امریکا حوالگی کے امریکی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ طالبان کو پسپا ہونا پڑا مگر وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے خود کو پھر سے منظم کر لیا اور غیر ملکی اور افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف چھاپا مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس عرصے میں دوسرے ممالک جن کی تعداد 50تھی امریکی افواج کی مدد کو آ گئیں ۔ ’’ناٹو‘‘ کے غیر اتحادی ایران پاکستان بھی امریکا کی حمایت کر رہے تھے۔ 20برسوں سے امریکا اور اس کے اتحادی طالبان کے حملوں کا زور توڑنے کی کوشش میں ہیں۔ لیکن امریکا اس میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی دوران بھارت نے افغانستان میں اشرف غنی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کے لیے بڑا اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا اور طالبان کے بار بار کے اعلان کے باوجود بھی اشرف غنی کابل کی حکومت سے دستبردار ہونے سے انکار کر رہا ہے۔ بھارت کے علاوہ امریکا کی عسکری قیادت بھی افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا سے انکاری ہے اور اس کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان سے واپس نکلنے کے لیے نہیں بلکہ وہاں طویل عرصے تک قیام کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی صدر اور ان کی کابینہ کے اکثر ارکان افغانستان سے افواج کے انخلا کی بھرپور کوشش میں مصروف رہے ہیں امریکی وزیر خارجہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز رواں سال مارچ میں کرانا چاہتے تھے لیکن قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر اختلاف رائے کے سبب مذاکرات تاخیر کا شکار ہوگئے تھے۔ دوحہ میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات سے قبل بھی چھ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا جس کے بعد ان قیدیوں کو خصوصی طیارے سے دوحہ پہنچایا گیا۔ یہ سب حالات افغانستان میں صرف اس لیے پیدا کیے جارہے ہیں کہ کسی طرح افغانستان میں طالبان کا راستہ روکا جائے۔ اسی لیے 15دن سے افغانستان میں بدامنی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس میں بھارت اپنے پرانے اتحادی ’’دولت اسلامیہ‘‘ کو بھرپور انداز سے استعمال کر رہا ہے۔ ہم اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں داعش کو ہتھیار بھارت سپلائی کرتا ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے داعش سے کھلے رابطے ہیں اور داعش افغانستان میں اس کی مدد اور اشرف غنی حکومت سے مل کر دہشت گردی کر رہی ہے، قبل ازیں 7 مار چ 2020 کوکابل میں اعلیٰ افغان سیاستدانوں کی ایک تقریب کے دوران مسلح افراد کی فائرنگ سے کم از کم 32 افراد ہلاک ہوئے تھے، شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ یہ تقریب ایک افغان شیعہ رہنما کی یاد میں منعقد کی گئی تھی۔ 2019 میں بھی داعش نے اسی تقریب کو نشانہ بنایا تھا جس میں افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ شریک تھے۔
12 ستمبر کو قطر میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے بعد سے افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے کسی معقول پیش رفت کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چونکہ ابھی تک مذاکراتی ٹیموں، افغان حکومت کے نمائندوں اور طالبان کے درمیان متنازع اُمور پر کوئی تصفیہ نہیں ہو پایا ہے، اسی لیے امن مذاکرات کے اصل مرحلے کا آغاز بھی نہیں ہوا ہے۔ فریقین کے درمیان اس بات پر نظریاتی اختلافات ابھی تک ختم نہیں ہوئے ہیں کہ امن مذاکرات کن اصول و ضوابط کے تحت ہوں گے اور ان کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ جس کے بعد فریقین مذاکرات کے مرکزی نکات یا ایجنڈا طے کریں گے۔
امریکا طالبان معاہدے کے تحت امن معاہدے کی صورت میں پینٹاگون افغانستان میں موجود اپنے 12 سے 13 ہزار فوجیوں کو واپس وطن بلا لے گا۔ افغان حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد دوحہ میں امریکی مصالحت کار طالبان کے ساتھ افغانستان بھر میں تشدد میں کمی پر متفق ہوئے تھے جس پر طالبان عمل کر رہے ہیں۔ بھارت اور اشرف غنی حکومت امریکا کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ ابھی بھی جنگ کا خدشہ موجود ہے۔ اس لیے امریکا افغانستان سے اپنی افواج کا مکمل انخلا نہ کرے۔ دوحہ مذاکرات سے پیش رفت کا موقع مل رہا ہے کہ امریکا افغانوں میں اپنا مثبت کردار ادا کرے، امریکا ایک سال سے زیادہ عرصے سے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ لیکن امریکا کی پالیسیوں میں بھارت اور اشرف غنی حکومت بڑی رکاوٹ ہے۔