خیالی پلائو کی دیگ

211

شعور اور لاشعور کا معاملہ اتنا ہی پرانا ہے جتنی انسانی تاریخ… کہتے ہیں انسان کے کردار کا دارومدار اس کے شعور پر ہوتا ہے اس کا ہر عمل شعور کے تابع ہوتا ہے آدمی کچھ کام شعوری طور پر کرتا ہے اور کچھ کام لاشعوری طور پر سر انجام دیتا ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان جو کام شعوری طور پر کرتا ہے وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ سو، وہ کام اس کے لیے ہی نہیں معاشرے کے لیے بھی سود مند اور بہتر ثابت ہوتا ہے۔ مگر جو کام لا شعوری طور پر کیا جائے وہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے۔ اس کی کارکردگی اور طرز حکمرانی سے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس کا ہر منصوبہ ہر پالیسی کا انحصار لاشعوری ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شعور اور لاشعور میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ لاشعور کی بنیاد نہیں ہوتی۔ وہ خلا میں معلق ہوتا ہے۔ لاشعوری طور پر جو منصوبے بنائے جاتے ہیں وہ خلا میں لٹکے ہوتے ہیں ہوائی قلعے ہوتے ہیں۔ خیالی پلائو ہوتے ہیں اور المیہ یہ بھی ہے کہ لاشعوری طور پر جو کام کیا جائے وہ لاحاصل اور بے معنی ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مشورہ بازوں نے جو پالیسیاں وضع کی ہیں ان کی حیثیت بھی ہوائی قلعوں اور خیالی پلائو کی دیگوں سے زیادہ نہیں مگر تحریک انصاف یہ سمجھنے پر راضی ہی نہیں کہ ہوائی قلعے اور خیالی پلائو کی دعوت دینا کم عقلی کے سوا کچھ نہیں۔ ملکی پالیسی ہو یا ذاتی منصوبہ بندی عقل کی متقاضی ہوتی ہے۔ اور عقل کے حصول کے لیے مشورہ اور مکالمہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ مگر جو لوگ عقل کے جذام میں مبتلا ہوں وہ مکالمہ کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور مشورہ بھی ان لوگوں سے لیتے ہیں جنہیں صرف مشورہ دینے کے لیے قومی خزانہ پر بوجھ بنایا جاتا ہے۔ اور مشورہ بھی ایسے لوگوں کا تسلیم کیا جاتا ہے جو مشورہ کم اور خوش آمد زیادہ ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے طرز حکمرانی میں تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ طرز حکمرانی میں تو کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ مگر ملک میں ایسی تبدیلی لائے ہیں کہ قوم ہی تبدیل ہوگئی ہے اور یہ پالیسی بھی ایسی ہے کہ جس نے قوم کے خیالات اور جذبات بھی تبدیل کردیے ہیں۔ اور یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ تحریک انصاف واقعی ملک میں تبدیلی لے آئی ہے۔ تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ تو ملنا چاہیے کہ وہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جو وعدہ کے مطابق تبدیلی لے آئی ہے۔ مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ قوم چاہتی ہے وزیر اعظم عمران خان اپنے وعدوں کے مطابق ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں۔ حکومت کے تمام ترجمان قوم کو یہ باور کرانے میں جتے ہوئے ہیں کہ قوم ان کی ہدایات پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔ لاک ڈائون میں نرمی کی گئی مگر قوم نے اس نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا حکومت کی ہدایات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً کورونا وائرس نے دوبارہ اپنا رنگ جما لیا ہے۔ اور یوں اموات کی تعداد بڑھنے لگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم حکومت کی ہدایات پر عمل کیوں نہیں کرتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے تو پھر موت کے خوف سے رات جاگ کر کیوں گزاری جائے۔
ڈاکٹر صاحب ایک بوڑھے مریض کا معائنہ فرما رہے تھے اچھی طرح دیکھ بھال کے بعد ڈاکٹر صاحب نے نسخہ تجویز کیا اور کہا کہ یہ ادویات اسی وقت اپناکام کریں گی جب تم سگریٹ پینا چھوڑ دو گے۔ ورنہ… ساری زندگی یوں ہی کھانستے رہو گے۔ مریض کے ساتھ آنے والے پوتے نے کہا دادا جان آپ نے سن لیا سگریٹ آپ کے لیے کتنا نقصان دہ ہے اسی لیے ہم آپ کو سگریٹ پینے سے منع کرتے ہیں۔
دادا نے کہا بیٹا میں نے سن بھی لیا ہے اور دیکھ بھی لیا ہے۔ ڈاکٹر مجھے سگریٹ پینے سے منع کر رہا ہے دیکھو خود کس طرح کش پے کش لگا رہا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ڈاکٹر صاحب سگریٹ پی نہیں رہے ہیں سگریٹ سے کھیل رہے ہیں۔ ہر دوسرے کش کے بعد دھوئیں کے مرغولے بنا بنا کر چھوڑ رہے ہیں۔ میں سگریٹ پیتا ہوں سگریٹ سے کھیلتا نہیں۔ صرف کش لگاتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے۔ اور یہ بات میری سمجھ سے بالا تر ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے بوڑھے مریض کی بات سنی اور کہا بزرگ سوچنے سمجھنے کی عمر سے گزر چکے ہیں۔ جتنے دن کی زندگی رہ گئی ہے۔ جو چاہیں کھائیں پئیں ان کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔