کراچی (رپورٹ: سید وزیر علی قادری) پاکستان میں ہاکی کو قومی کھیل کی حیثیت حاصل ہے ۔ ایک دور تھا جب پاکستان دنیائے کھیل میں ہاکی کا سپر پاور تصور کیا جاتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد اس کی تنزلی و زوال کا دور شروع ہوگیا جس کی مختلف وجوہات رہیں۔ اس سلسلے میں جسارت نے اولمپئنز ، آرگنائزرز سے اس سلسلے میں رائے لی کہ پاکستان کبھی ہاکی کی سپرپاور میں سے ایک تھا، مگر اب ہاکی کے عالمی اسٹیج پر پاکستان کہیں نظر نہیں آتا کیوں؟ ۔ ان لیجنڈ کھلاڑیوں میں مایہ ناز ہاکی کے ان اولمپئنز سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے ملک و قوم کا دنیا میں نام روشن کیا۔ ان میں سمیع اللہ، حنیف خان، احمد عالم، محمد ثقلین، ناصر علی اور حیدر قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں نمائندہ جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف اولمپئنز نے اپنے جذبات، خیالات اور قیمتی رائے کا اظہار کیا ۔اولمپئن حنیف خان کا کہنا تھا کہ ہاکی کی بربادی 25سال پہلے سے ہے ، انفرااسٹرکچرکمزور ہوچکا ہے، سیاست بڑھ چکی ہے، کھیل پر توجہ کم ہوگئی ہے، پہلے جو کامیابی تھی اس کی وجہ ڈومیسٹک انفرااسٹرکچر مضبوط تھا۔ اولمپک چیمپئن تھے، ورلڈ چیمپئن تھے، ایشین چیمپئن تھے۔ ٹیلنٹ بہت تھا ، انڈر 16، انڈر 18اور انڈر 20کھلاڑی دستیاب ہوتے تھے، اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ٹیمیں تھیں اور کھلاڑیوں پر کام ہوتا تھا۔اس وقت انفرااسٹرکچر برباد ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان ہاکی نقشے پر موجود نہیں۔ اس میں قصور حکومت، فیڈریشن کا نہیں ہے بلکہ سارا قصور ڈسٹرکٹ ، زونز کا ہے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے یہ سب خرابیاں پیدا کی ہیں۔ یہ سیاست میں زیادہ مشغول ہوگئے ہیں۔ جب تک اسٹف نہیں ہوگا ٹیم کیسے بنے گی۔ ؟آپ کے پاس گنے چنے لڑکے ہیں انہی کو آپ ادھر ادھر گھماتے رہتے ہو۔ جب تک اسٹرکچر مضبوط نہیں ہوگا ڈومیسٹک ٹورنامنٹس زیادہ سے زیادہ نہیں منعقد ہونگے جب تک آپ کی ہاکی بہتر نہیں ہوسکتی۔ اولمپئن سمیع اللہ نے اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان واقعی میں ماضی کے اوراق میں افق کی بلندیوں پر تھا اور سپر پاور تھا۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے ورلڈ کپ جیتا جس نے چیمپئنز ٹرافی اپنے نام کی ۔ یہی نہیں ایشین ہاکی پر اپنا سکہ جمایا۔ اسی لیے کہ دنیا دیکھے کہ پاکستان کی عوام ہاکی سے والہانہ محبت رکھتی ہے او ر ہاکی اس کا قومی کھیل ہے۔ آہستہ آہستہ پاکستان اپنا سفر جاری رکھتے ہویے 1984ء تک دنیا پر چھایا رہا۔ کوئی ٹائٹل نہیں چھوڑا سوائے 1980جب ماسکو میں ہونے والے ایونٹ کا بائیکاٹ ہوا۔ بس اس کے بعد1984میں ایسا وقت آیا جب پاکستان ٹیم کبھی11نمبر پر اورکبھی 8ویں نمبر پر چلی گئی۔ تنزلی کی وجوہات میں قوانین میں تبدیلی، کھلاڑیوں کی ناتجربہ کاری، یہی نہیں کھلاڑیوں کے لیے نہ حکومت نہ ہی فیڈریشن کی جانب سے کسی قسم کی ستائش کے طور پر مالی اعانت تھی۔ ملازمتیں بھی نہیں تھیں۔ پہلے کم از کم مالی مسائل آڑے نہیں آتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کے خاندان گزارا کرتے تھے مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور پاکستان ہاکی کو ناکامی کی صورت میں بہت بڑا دھچکا لگا اور ٹیم 12 ویں سے 13ویں نمبر پر اور پھر 17ویں پوزیشن پر چلی گئی۔ اس پر میں یہ کہوں گا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں تھی کو یہ پتا ہی نہیں کہ کھیل کو کیسے آگے بڑھایا جاتا ہے ۔یوں کہہ لیں کہ پاکستان کی فیڈریشن وہ کام نہیں کررہی ، پاکستان کی حکومت وہ معاونت نہیں کررہی جو کرنا چاہیے۔ دعا ہے کہ ایسے افراد فیڈریشن کو میسر ہوں کہ وہ باصلاحیت کھلاڑیوں کو تیار کرکے میدان میں اتاریں اور آئندہ 4، 5سال میں ٹیم چیمپئن تو نہیں مگررینکنگ میں ٹاپ 5پر آسکتی ہے۔ اس سلسلے میں ثقلین کا کہنا تھا کہ بالکل صحیح بات ہے پاکستان ہاکی چیمپئن تھا مگر چیمپئن چیمپئن ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہاکی کھیل میں کھلاڑیوں کا جو فٹنس کا معیار ہے وہ بین الاقوامی اعتبار سے دیگر ٹیموں سے میچ نہیں کرپارہا۔ اگر ہم نے کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے تو ہمیں اسکل لیول پر توجہ دینا ہوگی خصوصاً پنالٹی کارنر، گول کیپر کا شعبہ بہت مضبوط کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ فزیکل فٹنس پر بہت زیادہ توجہ دینا پڑے گی کیونکہ ہماری فٹنس عالمی معیار کی نہیں ہے۔ انفرااسٹرکچر پر کام کرنا ہوگا۔ حکومت کو مکمل توجہ دینا پڑے گی۔ سابق قومی ٹیم کپتان اولمپئن ناصر علی نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ فیڈریشن کے عہدیداران خصوصاً صدر بریگیڈیئر سجاد کھوکر دن رات ایک کرکے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ میں نے صدور قومی فیڈریشن نور خان ، دائود پوتہ جو گورنر سندھ بھی رہے، وقار عظیم، عارف خان عباسی کے ادوار کو بھی دیکھا ہے اور ان کی غیر معمولی ہاکی سے دلچسپی اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف سوچ رکھنا بلکہ اس کو پورا بھی کرنا ۔ اور یہ چاروں صدور بغیر مبالغہ ہاکی اور اس کے ساتھ جڑی فیملی کی ترقی کے لیے سنجیدہ رہے بالکل اسی طرح ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ موجودہ قیادت بھی اس سلسلے میں اسی روح کے مطابق کام کررہی ہے۔ میں اس وقت سلیکٹر ہوں، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ نہ کسی کی سفارش مانیں گے اور نہ ہی کسی قسم کا دبائو قبول کرینگے کہ فلاں لڑکے کو چن لو یا اس کو نکال دو جو لڑکا بہتر ہوگا چاہے میرا دشمن ہی ہو یا کسی اور سلیکٹر کا ناپسندیدہ اگر وہ باصلاحیت ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کی حق تلفی ہو۔ ہمارے ذہن میں صرف یہ ہے کہ پاکستان وکٹر ی اسٹینڈ پر آئے اور ملک کا پرچم بلند ہو۔ اس موقع پر کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری حیدر کا کہنا تھا کہ ہاکی کے زوال کی وجہ گراس روٹ پر کام نہ ہونا ہے۔ ہمیں اسکولوں اور کلبوں پر کام کرنا چاہیے تھا جب تک ہم اس پر کام نہیں کرینگے ہمارے مسائل ہی رہیں گے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ اسکول میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کو کالج میں داخلے مل جایا کرتے تھے ، اسی طرح کالج کی ٹیم کے لڑکوں کو پروفیشنل کالجز و یونیورسٹیز میں داخلے مل جاتے تھے جس میں این ای ڈی اور کراچی یونیورسٹی، آدم جی اور ڈی جے کالج قابل ذکر ہیں۔ اس کے لیے حکومت پر زور ڈالنا پڑے گا وزیر تعلیم کو اس سلسلے میں آگے آنا ہوگا تاکہ دوبارہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہاکی کی ٹیمیں بنیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں ۔ میری تجویز یہ ہے کہ 3 ٹیمیں ہونی چاہییں ، اے ، بی اور سی تاکہ بیک اپ پر لڑکا رہے،ہر صوبے میں اکیڈمیاں بننی چاہییں۔ ان میں جو بچے ٹینلٹ رکھتے ہوں ان کو تعلیم اور وظیفہ بھی دیا جائے ۔ اولمپئن احمد عالم نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ یقینا پاکستان ایک دور تھا کہ فتوحات سمیٹ کر بڑے عرصے ہاکی کی تاریخ میں سپر پاور کی فہرست میں رہا مگر بعد میں بدقسمتی سے پسند اور ناپسند اور بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود ملازمتوں کے حصول میں ناکامی پر کھلاڑی بددل ہوکر اس کھیل سے دور ہوتے چلے گئے۔ قومی ٹیم کی فتوحات کی ایک تاریخ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ہاکی میں لیجنڈ اور دنیا میں نام پیدا کرنے والے اولمپئنز کی ایک لائن تھی۔ مگر افسوس کہ بہت سے عوامل ایسے پیدا ہویے کہ ہاکی زوال پزیر ہوتی گئی۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہاکی کھیل میں جو بچے شوق سے آتے تھے وہ نہایت ہی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی نہیں انہیں ہاکی ، شوز سے لے کر کٹ تک ایسوسی ایشن یا فیڈریشن نے ہی مہیا کرنا ہوتی تھی۔ مگر فیڈریشن کی مالی حیثیت ، اسپانسرز کا نہ ہونا اور حکومت کی عدم دلچسپی نے رہی سہی کسر پوری کردی اور میدانوں سے ہاکی کھیل خالی ہوتا چلا گیا۔ دوسری طرف گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کی فکر نے اچھے اچھے نوجوان کھلاڑیوں کی کمر توڑ دی اور وہ نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں چلے گئے۔ اسکولوں اور کالجوں اور ڈیپارٹمنٹوں میں ہاکی کھیل کے لیے ٹیمیں بننا بند ہوگئیں۔ خود مینجمنٹ نام کی کوئی باڈی مستحکم نہیں رہ سکی، کوچز، منیجرز اور ٹرینرز کو اپنی نوکری کی فکر لگ گئی۔ ہر وقت معطلی کی تلوار ان کے ذہنوں پر لٹکتی رہتی لہٰذا ہاکی عروج کے بجائے شائقین کی نظر میں اپنا مقام کھوتی چلی گئی۔اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ بہترین کارکردگی دکھانے کے باجود کھلاڑیوں کو عمر کے شکنجے میں باندھ دیا گیا اور فٹنس کے باجود انہیں قومی ٹیم میں نہیں لیا گیا جس سے بعد کے آنے والے نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی۔ قومی کھیل کو آگے لانا نے کے لیے سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے اور اسکولوں، کالجوں اور اداروں میں ہاکی کو بحال کرنا ہوگا تو امید ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کا ہوگا اور ایک مرتبہ پھر دنیا دیکھے گی کہ ماضی کے سپر اسٹار جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا تھا نیا خون ان کی جگہ لے کر قومی پرچم کو وکٹری اسٹینڈ پر لے آیا ہے۔