خالق سے وفاداری اور مخلوق کی خیرخواہی

437

موجودہ عالمی ماحول اپنی بیش تر صورتوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے گویا چلینجز کا ایک انبار ہے۔ یہ انبار ایسا ہے کہ اس کا ہر دانہ کشتِ وجود کے لیے ایک انگارہ ہے۔ اس ماحول میں اس سے موافقت پیدا کر کے رہنے کے لیے دین و مذہب ہی نہیں بلکہ آدمی کو اپنے آدمیت سے بھی پیچھا چھڑانا ہو گا۔ اب خدا کا انکار کافی نہیں مانا جائے گا، تنسیخِ آدم (dehumanization) کے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ آدمی خدا کا منکر ہو جائے تو جو بگاڑ پیدا ہو گا عارضی ہو گا، لیکن آدمی اپنے ہی انکار پر آمادہ اور کمر بستہ ہو جائے تو یہ فساد اپنے دائرے میں مستقل ہو گا۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر یہ صورتِ حال پیدا ہو گئی کہ آدمی خود ہی تارک ہے اور خود ہی متروک، تو خدا کو ماننے اور نہ ماننے کی کشاکش ہی ختم ہو جائے گی۔ اگر ہمیں اس انجام کو پہنچنے سے بچنا ہے تو دو اصولوں پر خود کو غیر متزلزل استقامت کے ساتھ قائم رکھنا ہے۔ وہ دو اصول یہ ہیں: اللہ سے جڑے رہو وفاداری کے ساتھ اور مخلوق سے متعلق رہو خیر خواہی کے ساتھ۔
ہم ان دونوں بنیادوں پر خود کو آسانی اور ثابت قدمی کے ساتھ استوار کر سکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ استغفار میں جی لگنا چاہیے اور شکر سے دل کو نہال رہنا چاہیے۔ شکر اور استغفار کے لیے احساسات اور جذبات کی کمی نہ ہو۔ اللہ سے استغفار اس طرح کرو کہ اس کے دستِ بخشش کی تھپک محسوس کر لو، اور شکر اس طرح ادا کرو کہ گویا اللہ کو عطا کرتے ہوئے دیکھنے کے عمل سے گزر رہے ہو۔ شکر اور استغفار کو خالص کر کے اپنے احساسات میں داخل کرو اور دنیا میں دوسروں کو شریک رکھو۔ اپنی دنیا میں دوسروں کو شریک نہ رکھنے والا آخرت میں فلاح پانے کی قابلیت کھو بیٹھتا ہے۔ اپنے وسائل، اپنے اختیارات، ان سب کو دوسروں کے فائدے کے لیے استعمال کرو اور دوسروں کے فائدے کو اتنی اہمیت دینے کی کوشش کرو کہ کبھی کبھی اپنا نقصان بھی خوشی سے گوارا ہو جائے۔ اس روٹی سے زیادہ لذیذ کوئی روٹی نہیں ہوتی جو میں خود بھوکا رہ کر آپ کو کھلا دیتا ہوں۔ شکر و استغفار کے باطنی آداب اچھی طرح بجا لانے کے لیے کچھ عادات و معمولات کو بدلنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فون وغیرہ کے استعمال میں بہت ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے۔ یہ چیزیں ہمارے اندر ایک ایسا خلا پھونک رہی ہیں جس میں انسان سانس نہیں لے سکتا۔ ان سے اپنی تنہائی کی بھی حفاظت کرو اور اپنی مجلسوں میں بھی انہیں دراندازی نہ کرنے دو۔ یہ سب وہم ہے کہ علم نیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علم استاد سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسی معلومات جن کے صحیح اور غلط ہونے کا تعین میرے بس میں نہیں ہے، وہ علم نہیں ہیں بلکہ جہلِ مرکب ہیں۔ اس مرض میں مبتلا شخص اس خوش فہمی میں رہتا ہے کہ وہ صاحبِ علم ہے۔ تو بھائی، تنہائی کی بھی حفاظت کرو اور معاشرت کی بھی۔ ایک موبائل فون ہی نے ہمارے اندر ان دونوں کو غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ تعلق کا پورا نظام تہس نہس ہوتا جا رہا ہے۔ تنہائی میں یہ ہمیں خود سے دور کر دیتا ہے اور معاشرت میں دوسروں سے۔ غضب خدا کا، چار دوست پانچویں کے گھر آئے، جلدی جلدی علیک سلیک ہوئی اور سب نے مل کر بیہودہ اور بھونڈا سا قہقہہ لگایا اور پھر بیٹھتے ہی اپنے اپنے فون پر مشغول ہو گئے۔ اسی طرح سب گھر والے بیٹھے ہیں لیکن یہ موبائل انہیں ایک دوسرے کی طرف متوجہ نہیں ہونے دے رہا۔ آپ ہی بتائیے کہ یہ کبھی ہوسکتا تھا کہ باپ بیٹھا ہو اور بیٹا اپنے کسی شغل میں محو رہے! لیکن جب باپ ہی اس لت میں مبتلا ہو تو بیٹے کو کیا کہا جائے۔ اب یہ احساس ہی مفقود ہوتا جا رہا ہے کہ یہ مشغولیت دوسروں کی اہانت کا باعث بن چکی ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ میں بھری مجلس میں اپنے فون سے کھیلتا رہوں۔ یہ اہلِ مجلس کی بدترین توہین ہے۔ یہ تو بالکل سامنے کی باتیں ہیں، ان سائبر ایجادات اور آلات کے منفی اثرات کا ذرا گہرائی میں جا کر جائزہ لیا جائے تو ہر وہ آدمی اپنے ڈرنے کی سکت سے زیادہ ڈر جائے گا جسے اپنا ایمان اور اپنی آدمیت تاحال عزیز ہے۔ سچی بات ہے، کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ وجود کی ساری طاقت معدومیت کی تعمیر میں صرف ہو رہی ہے۔
ان نحوستوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے استغفار کے ساتھ قلبی ہم آہنگی کا اہتمام بہت ضروری ہے۔ ایسی توبہ کرنے والا اللہ کو خوش رکھتا ہے اور اس کی برکت سے خود بھی اطمینانِ نفس کی کیفیت رکھنے والی خوشی سے شرابور رہتا ہے۔ یہ یاد رکھنا کہ توبہ سے حاصل ہونے والی طمانیت کسی نیکی سے بھی میسر نہیں آ سکتی۔ سب جانتے ہیں کہ توبہ صرف بخشش کی التجا نہیں ہے بلکہ اللہ کی طرف محبت اور خشیت کو ایک کر کے لپکنے کا مسلسل عمل اور مستقل حال ہے۔ ایک بندہ تائب ہی کہہ سکتا ہے کہ میں اللہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تم جانتے ہو کہ یہ کتنی بڑی بات ہے! اللہ نے ہمیں دنیا میں جس آزمائش میں سرخرو ہونے کی ذمے داری دے کر بھیجا ہے اس کی انتہا یہی ہے کہ ہم خود کو سچائی کے ساتھ یہ کہنے کے قابل بنا کر دکھائیں کہ یا اللہ! آپ خود دیکھ لیجیے کہ ہم دنیا کے بغیر رہ سکتے ہیں، اپنے آپ کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تو مختصر یہ کہ توبہ بندگی کا بینادی اور مرکزی حال ہے۔ یہ حال جتنا پختہ ہوتا جائے گا، دیگر احوالِ بندگی بھی اسی حساب سے حاصل ہوتے جائیں گے۔
O
ہماری معاشرت یہ تھی کہ اذان کی آواز بلند ہوتے ہی گویا کائنات پر سکتہ چھا جاتا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ اذان ہو رہی ہے اور وہ شخص جو پانچ وقت کا نمازی ہے، وہ بھی اپنی کاروباری یا فضول گفتگو کو روکنا گوارا نہیں کرتا۔ فوراً نماز کی تیاری کی طرف متوجہ ہونا تو دور کی بات ہے، اذان کا جواب دینا جو واجب کے درجے میں ہے، یہ آدمی اْس کی طرف سے بھی غافل ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اذان یا تو ’الارم‘ ہے یا زلزلہ۔ ان دو کے سوا اس کو محسوس کرنے کا کوئی اور زاویہ ہے ہی نہیں۔ یہ یا تو غفلت کے ماحول میں زلزلے کی طرح آتی ہے اور مجھے بیدار کرتی ہے، یا الارم کی طرح گونجتی ہے کہ بس اب بہت ہوچکا، اللہ کی طرف چلو۔ اس پس منظر میں دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ جو شخص اذان سے غافل ہے وہ نماز کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔ مولانا قاسم نانوتوی کی بیگم دین داری میں شاید ان سے بھی زیادہ تھیں۔ سخاوت میں تو جیسے حاتمِ وقت تھیں۔ ان کے ایک ہی صاحب زادے تھے، حافظ محمد احمد صاحب۔ حافظ صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میری والدہ مجھے بہت چاہتی تھیں، زیادہ تر میں ان کی گود میں رہتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اذان سنائی دیتی تھی وہ مجھے بالکل لاتعلقی سے اور اجنبی بن کر ایک طرف بٹھا دیتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان سے میرا کوئی تعلق کیا، شناسائی بھی نہیں ہے۔ یہ ہوتی ہے اذان کی تاثیر، یہ ہوتا ہے اذان کا ادب۔
اسی طرح وضو کے کتنے آداب تھے۔ لوگوں کو، اپنے بڑوں کو آپ نے وضو کرتے دیکھا ہوگا۔ کیسی حالتِ حضوری میں دنیا کے زہد کے ساتھ وضو کیا جاتا تھا۔ وضو سے دو چیزیں ظاہر ہوتی ہیں: ایک اللہ کی حضوری، اور دوسرے دنیا کا زہد۔ جس وضو کو دیکھنے سے نماز کی کشش پیدا ہو جاتی تھی تو جو آدمی اس طرح وضو کرتا تھا اس کی نماز کیسی ہوگی! اب نہ نماز کا احترام ، نہ وضو کا اہتمام۔ آپ خانۂ کعبہ کی مسجد میں بھی چلے جائیے تو وہاں وضو اپنی مسنون صورت اور حالت میں کم ہی نظر آتا ہے۔ نماز اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ تعلق کی بہت بڑی کسوٹی ہے۔ اِس سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا تعلق باللہ سچا ہے یا نہیں۔ اِ س عظیم ترین عمل کی یہ دو بنیادیں ہیں، اذان اور وضو۔ اِن دونوں کا ہم نے یہ حشر کر رکھا ہے کہ وضو صرف ہاتھ پاؤں دھونا رہ گیا ہے، اور وہ بھی اسراف، بے پروائی اور غفلت کے ساتھ۔ اذان سننے اور اس کا جواب دینے کی روایت اتنی کمزور پڑ گئی ہے کہ علما کی مجلس میں بھی اِس کا رواج کم رہ گیا ہے۔ جو بے چارہ اذان کا جواب دینے کا عادی ہے، وہ اِ ن مجلسوں میں چھپ چھپا کر اذان کا جواب دیتا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ یہ بہت بڑا بحران ہے، بہت بڑی مشکل ہے۔ جو اللہ کو سچائی سے ماننے والا ہے، وہ خود کو اور اپنے فوری ماحول کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش میں صرف کر دے گا، اور جو ایسا نہیں ہے وہ تماش بینوں کی طرح دیکھتا رہے گا۔
یہ باتیں میں نے اس لیے ذرا بلند آہنگی اور تلخ نوائی کے ساتھ کی ہیں کہ جدید دینا میں طمع، رغبت اور احساسِ کمتری کے ساتھ رہنے والے طبقات میں دینی ذوق کا بگاڑ اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اذان، وضو وغیرہ کو چھوٹی چیزیں سمجھ لیا گیا ہے۔ زیادہ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ دین کے ساتھ مخلص لوگوں کی ایک قابلِ لحاظ تعداد بھی اس بدذوقی کا شکار ہے۔ یہ لوگ اعلاے کلمۃ اللہ کی جدوجہد ہی کو دین کا واحد مقصود سمجھتے ہیں اور اس جدوجہد کا ہدف بس خارج کی دنیا کو بناتے ہیں، ان کے نعروں کی گونج اور جھنڈوں کا سایہ باطن تک نہیں پہنچتا۔ اس طرح کے انقلابی لوگوں میں ایک مزاج جڑ پکڑ لیتا ہے۔ اور وہ یہ کہ دین کا وہی کام بڑا ہے جس سے کام کرنے والے کی بڑائی بھی ظاہر ہوتی ہو۔ یہی لوگ آج کی گفتگو کے اصلی مخاطب ہیں۔