مصر پر مسلط جنرل عبدالفتاح سیسی کی اسلام دشمن حکومت نے اپنے جرائم میں پیش قدمی کرتے ہوئے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی دعوت دینے کو جرم قرار دے دیا۔ مصر کے معروف عالم دین اور مبلغ شیخ مصطفی عدوی نے فرانس میں ریاستی سرپرستی سے جاری توہین اسلام کے خلاف مسلمان حکمرانوں کو عملی اقدام کرنے کی دعوت دی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک وڈیو پیغام میں کہا تھا کہ مسلمان حکمران اسلام سے برسرپیکار ممالک کے بجائے غیرمتحارب ممالک سے اسلحہ خریدیں، کیوں کہ فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ عام مسلمانوں ہی کا نہیں حکمرانوں اور سیاست دانوں کا بھی فریضہ ہے۔ مغربی آقاؤں کے اشاروں پر ناچنے والی سیسی حکومت کو شیخ مصطفی عدوی کا یہ جرأت مندانہ بیان پسند نہ آیا اور پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔ سیسی حکومت کی جانب سے اگرچہ یہ مغرب نوازی اور اسلام پسندوں سے دشمنی کی پہلی مثال نہیں ہے، تاہم ایک ایسے موقع پر جب فرانس میں توہین رسالت کی پے در پے ناپاک جسارت کے باعث پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں، مصری آمریت کا یہ اقدام ناقابل قبول اور امت مسلمہ کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ مصر میں پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد سیسی حکومت نے انسانیت کے خلاف جرائم میں فرانس ہی کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہید، گرفتار اور لاپتا ہوچکے ہیں۔ اخوان المسلمون سمیت فوجی حکومت کی ناقد تمام ہی جماعتوں کے رہنما اور کارکن قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ سیکڑوں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس لیے سیسی حکومت کی جانب سے فرانس کی گستاخانہ سرگرمیوں کے حمایت میں یہ اقدام کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن یہ باعث افسوس ضرور ہے کہ ایسے وقت میں جب مسلمانوں کی جانب سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ نے متعصب صدر عمانویل ماکروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، مصر پر قابض فوجی حکومت اس بائیکاٹ اور احتجاج کو دبانے کے لیے اپنے ہی شہریوںاور شخصیات کے خلاف صف آرا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں معاشی دھچکا لگنے کے بعد سے فرانسیسی صدر دنیا کو وضاحتیں دیتا پھر رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کے بیانات کو توڑ موڑ کر نشر کیا گیا۔ فرانس کی جنگ اسلام نہیں شدت پسندی کے خلاف ہے۔ نیز یہ کہ اس کی حکومت مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی کو بڑھاوا نہیں دے رہی۔ ماکروں نے ایک انٹرویو میں یہ تک بہانا تراشا کہ وہ اب سمجھا ہے کہ خاکے بعض لوگوں کے لیے اس قدر تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔ غرض فرانس کی اسلام دشمن اور نسل پرست حکومت نے مسلمانوں کے عملی احتجاج کو جتنا سنجیدہ لیا، اتنا اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے مذمتی اور صلح کل انداز کے بیانات کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ممالک ریاستی سطح پر فرانس کو لگام ڈال کر برسوں سے جاری توہین مذہب کا یہ سلسلہ بند کراسکتے ہیں۔ مسلمانوں کے ممالک کی اکثریت ایسی ہے، جہاں حکمرانِ وقت، حکومت، مقتدر حلقوں اور افواج کو تنقید کا نشانہ بنانا، ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح حلیف غیرمسلم ممالک کے خلاف بیان بازی بھی برداشت نہیں کی جاتی۔ اس جرم کی پاداش میں مختلف ممالک میں لاکھوں شہری پابند سلاسل اور لاپتا ہیں۔ لیکن بات جب توہین اسلام اور ناموسِ رسالت کی آتی ہے، تو یہی حکومتیں مذمتی بیانات داغ دینے پر اکتفا کرتی نظر آتیں ہیں۔ ان ممالک کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب کا درجہ تو دیا جاتا ہے، لیکن ان کی سرزمین پر عملاً اس دین کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اپنے ممالک میں قرآن وسنت کے نفاذ کا خواب دیکھنے کو ’’سیاسی اسلام‘‘ کا نام دے کر اسلام پسندوں کو ختم کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، کیوں کہ امریکا اور یورپی یونین سے چین اور روس تک ہر خودساختہ عالمی ٹھیکے دار کو مسلمانوں کا یہ روپ خوف زدہ کرتا ہے۔ تاہم ان حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ یہ دین غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد مسلمانوں کی یہ خواہش پوری کردیں گے۔ اس لیے بحیثیت مسلمان عالم اسلام کے حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس سمت میں پیش رفت کریں اور مغرب کے آلہ کار نہ بنیں۔