پھر سہانے خواب

168

حکومت کی جانب سے عوام کو سہانے خواب دکھانے کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری کابینہ نے یہ گمان کرلیا ہے کہ عوام کا پیٹ چکنی چپڑی باتوں سے بھر جاتا ہے، یا ان کے نزدیک پاکستان کے عوام بھی کالانعام یعنی مویشیوں کی مانند ہیں۔ یقین نہیں آتا تو وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر کا یہ بیان ہی ملاحظہ فرمالیں کہ درآمدی چینی مارکیٹ میں آچکی ہے، جو 15 سے 20 روپے فی کلو سستی ہوگی۔ ان کے ساتھ بیٹھے وزیر تحفظ خوراک سید فخر امام نے ہمنوائی کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی قیمت میں اضافے کی وجہ پیداوار میں 20 لاکھ ٹن کمی ہے، لیکن اب درآمدی گندم سے قیمت میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ یہ بیانات سنتے ہی قوم سجدے میں گرگئی ہوگی اور عوام نے خان صاحب کی درازیٔ عمر وطولِ اقتدار کی دعا کی ہوگی، لیکن شاید وفاقی حکومت اور وزرا کو اب بھی لوگوں کی تکالیف کا حقیقی ادارک نہیں ہے، کیوں کہ قوم یہ بیان 100 روز کے پہلے دعوے سے سنتی چلی آرہی ہے، مگر اس کے دکھوں اور تکالیف میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس حوالے سے امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وزیر اعظم کو آئینہ دکھاتے ہوئے جو کچھ کہا ہے، وہی درحقیقت عوام کی ترجمانی ہے۔ سراج الحق کا کہنا ہے کہ ’’وزیراعظم اپنے جلسوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کے حق میں دلیلیں دے رہے ہیں۔ حکومت کو 2سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا۔ اب اسے سابق حکمرانوں کو کوسنے کے بجائے خود کچھ کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں، مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف تحریک کا آغازجماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا سے کردیا ہے۔ ہمارا ایجنڈا غریب آدمی کے مسائل کا حل اور ملک میںنظام مصطفی کا نفاذ ہے۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن مافیا ہماری راہ میںرکاوٹ ہے، جب کہ شوگر مافیا، لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا وزیر اعظم کے دائیں بائیں موجودہے۔ کابینہ کی اکثریت پرمقدمات ہیں اور نیب اس پر خاموش ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ لوگ جیلوں کے اندر ہوں گے‘‘۔ حکومتی کارکردگی پر یہ انتہائی حقیقت پسندانہ تبصرہ ہے۔ یہ صرف سینیٹر سراج الحق ہی کا خیال نہیں، بلکہ قوم کا بچہ بچہ حکومت کا یہ انجام ہوتا دیکھ رہا ہے۔ غریبوں کا استیصال کرکے سرمایہ داروں کو نوازنے والی کوئی بھی حکومت ماضی میں چلی ہے نہ چل سکتی ہے۔اس لیے وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن اور اس کی حالیہ تحریک سے خوف زدہ ہونے کے بجائے عوام کے غم و غصے کی فکر کریں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حکومت اپوزیشن سے تو بچ جائے ، لیکن عوام کا اشتعال اس کا سورج غروب نہ کر دے۔