اس وقت پاکستانی معیشت کی مثال ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو بیچ سمندر میں پھنسی ہوئی ہے۔ پانی کی اُونچی اُونچی لہریں اور طوفانی ہوائیں اسے ساحل پر آنے نہیں دے رہیں۔ طوفان کی شدت میں کمی آتی ہے تو کشتی کے مسافر خوشی سے اُچھلنا کودنا شروع کردیتے ہیں کہ ہم ساحل تک پہنچ جائیں گے لیکن پھر پانی کی ایک تیز لہر کشتی کو مخالف سمت میں دھکیل دیتی ہے اور مسافروں پر موت کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ حکومتی کوششوں اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث صنعتی اور تعمیراتی سیکٹر میں بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ آٹو سیکٹر میں گاڑی کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے، سیمنٹ کی طلب میں اضافہ ہوا ہے، تقریباً تین سو نئے تعمیراتی پروجیکٹ منظوری کے لیے زیر غور ہیں۔ مالیاتی لین دین میں سخت قوانین اور اصلاحات کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہوئی ہے۔ پچھلے ماہ برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے صنعتی اور برآمدی صنعتوں کے لیے پاور سیکٹر میں رعایتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ درمیانی اور چھوٹی صنعتوں کو بھی پاور سیکٹر میں رعایت دی جائے گی۔ بین الاقوامی سطح پر آئل کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے جس سے تجارتی خسارہ کم ہوگا۔ رواں مالی سال خسارہ جو پچھلے ماہ مثبت ہوگیا تھا گزشتہ ماہ بھی بہت کم رہا۔
دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ کورونا وائرس سے بچائو کی خاطر جو لاک ڈائون رہا اور معیشت مسلسل چھ ماہ سست روی کا شکار رہی اس سے ایک رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ 10 لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، ساتھ ہی ساتھ مہنگائی کی شرح 8 اور 9 فی صد کے درمیان ہے۔ چناں چہ لوگوں کی قوت خرید میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی اس صورت حال کو معاشی ماہرین stagflation کہتے ہیں جس سے غریب اور متوسط طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے اور یہ صورت حال آہستہ آہستہ ٹھیک ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک نے آئندہ دو سال کے لیے معاشی ترقی کا تخمینہ 1.3 فی صد لگایا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کا اندازہ 2 فی صد ہے جب کہ بڑھتی ہوئی نوجوانوں کی تعداد کو روزگار فراہم کرنے کے لیے معاشی نمو کی شرح کم از کم 5 فی صد ہونی چاہیے۔ ورنہ بے روزگاری کم نہیں ہوگی۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے ستمبر 2020ء تک 2150 ارب ہوچکے ہیں، جس کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی کے نرخ مزید بڑھائے جائیں۔ بجلی کے نرخ پاکستان میں ایشیائی ریجن میں سب سے زیادہ ہیں۔ دوسرے ممالک میں اوسطاً 6 سینٹ فی یونٹ جب کہ پاکستان میں ریٹ 12.5 سینٹ فی یونٹ ہے۔ اتنی مہنگی بجلی سے صنعتیں چلانا، فصلیں پیدا کرنا اور دوسری کاروباری، تجارتی سرگرمیاں تقریباً ناممکن ہیں۔ اسی لیے حکومت نے پیک آورز (Peak Hours) کا سلسلہ ختم کردیا ہے اور چھوٹی اور بڑی صنعتوں کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان پر مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 87 فی صد ہوگیا ہے جس میں بیرونی قرضہ 78 ارب ڈالر ہے۔ اس صورت حال کے باعث آئی ایم ایف سے قرضے کا معاملہ رکا ہوا ہے اور فروری 2020ء کے بعد مزید کوئی رقم پاکستان کو جاری نہیں کی گئی۔ جب کہ پاکستان کو اپنے ریزرو میں ڈالرز کا اضافہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ بدانتظامی اور نااہلی کا عالم یہ ہے کہ بیرونی امداد سے چلنے والے 15 منصوبے جن پر ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، جاپان اور چین سے 3.12 ارب ڈالر کا وعدہ کیا ہوا ہے ان پر کام تاخیر اور سست روی کا شکار ہے۔ اس لیے ان ذرائع سے فنڈ نہیں آرہے۔ زرعی شعبہ ہی عدم توجہی اور لاپروائی کا شکار ہے۔ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے کپاس کی پیداوار انتہائی اہمیت رکھتی ہے لیکن پاکستان جو ہر سال 10 سے 12 ملین گانٹھیں پیدا کرتا ہے اس سال 7 سے 8 ملین گانٹھیں پیدا کرسکے گا، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جس طرح پاکستان گندم، ٹماٹر اور چینی درآمد کررہا ہے اسی طرح کپاس بھی درآمد کرنا پڑے گی۔
پاکستان کے پالیسی سازوں کو زراعت، صنعت اور سروسز سیکٹر کے لیے الگ الگ طویل مدتی اصلاحاتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے تا کہ معیشت کی بھٹکتی ہوئی کشتی ساحل تک پہنچ سکے اور غریب لوگ چین کا سانس لے سکیں۔