سعودی عرب سے کچھ مثبت اشارے؟

383

بھارت نے بہت مہارت کے ساتھ یہ تاثر دیا تھا کہ سعودی عرب کشمیر سمیت تمام معاملات پر بھارتی موقف کا غیر مشروط حامی ہوگیا ہے۔ مودی کے دورۂ سعودی عرب اور وہاں ان کے پرتپاک استقبال کے بعد تیزی سے چل پڑنے والا یہ تاثر گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد مزید تقویت حاصل کر گیا۔ پانچ اگست کے بعد او آئی سی کی کمزور پالیسی، وزرائے خارجہ اجلاس بلانے میں لیت ولعل کا رویہ اس تاثر کو مزید تقویت دینے کا باعث بنا۔ اس تاثر ہی نے پاکستان اور سعودی عرب میں اعلانیہ اختلافات کو بھی ہوا دی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک انداز میں کہا کہ اگر او آئی سی نے کشمیر پر اپنا موقف واضح نہ کیا تو پاکستان دوسرے ہم خیال ملکوں کا اجلاس بلا سکتا ہے۔ سعودی حکومت کے ایک وزیر نے اسے ایک خطرناک خیال قرار دیتے ہوئے توقع کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں دراڑ نہیں آئے گی۔ اس کے بعد ہی اچانک پاکستان نے سعودی عرب سے حاصل ہونے والے قرض کی ایک سو ارب روپے کی قسط عجلت میں واپس کر دی تھی۔ قرض کی یہ ادائیگی چین سے حاصل کردہ رقم سے کی گئی تھی۔ اس عجلت کو سعودی عرب کی ناراضی پر ہی محمول کیا گیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے ترکی کے ارطغرل جیسے ڈراموں کو دکھانے اور ترک کلچر کو فروغ دینے کو بھی سعودی حکومت نے پسند نہیں کیا۔ اسرائیل کو عرب ملکوں کی طرف سے تسلیم کرنے کے بعد پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث زور وشور سے شروع کی گئی تھی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ کچھ عرب ممالک پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کے معاملے میں سرگرمی دکھا رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے موجودہ حالات میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اعلان نے فی الحال اس بحث کا دروازہ بند کر دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور دوسری عرب ریاستوں کے بعد اب اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے سارا دبائو سعودی عرب پر ہے۔ سعودی عرب میں رائے عامہ اور حکمران طبقات میں اس حوالے سے دو آراء موجود ہیں۔ ان حالات میں G20 ملکوں کی کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب نے بیس ریال کا ایک نیا نوٹ جاری کیا ہے جس پر دنیا کا نقشہ موجود ہے۔ اس نقشے میں کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا حصہ دکھانے کے بجائے متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔ یہ ایک اصولی اور بین الاقوامی تسلیم شدہ پوزیشن ہے۔ پاکستان بھی اس اصولی موقف کا حامی ہے۔ سوشل میڈیا میں اس اصولی پوزیشن کے اظہار کو کشمیر پر پاکستان کے موقف کی مخالفت اور بھارتی موقف کی حمایت قرار دینے کی ایک مہم شروع کی گئی۔ جب باریک بینی سے کرنسی نوٹ کا جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ اس نقشے میں کشمیر کو پاکستان اور بھارت سے الگ ایک متنازع علاقہ دکھا یا گیا ہے۔ یہاں تک کہ دفتر خارجہ کے ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ سعودی کرنسی نوٹ پر کشمیر کو بھارت کا حصہ نہیں دکھایا گیا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر برپا طوفان تھم سا گیا۔ اس کے بعد بھارت کی تلملاہٹ شروع ہوئی اور اس نے اپنا روایتی راگ اٹوٹ انگ والا راگ الاپنا شروع کیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ وستاوا نے اعلان کیا کہ بھارت نے یہ معاملہ ریاض میں سعودی حکومت اور دہلی میں سفارت خانے کی سطح پر رابطہ کرکے اپنی سنجیدہ تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ بھارتی ترجمان نے سعودی عرب کے اس اقدام کو ’’مس پریزنٹیشن‘‘ کا نام دیا اور اسے درست کرنے کی امید کا اظہار بھی کیا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ سارے یونین ٹیریٹریز بھارت کا حصہ ہیں۔
G20 ملکوں کی کانفرنس ریاض میں 21,22 نومبر کو ہو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے احتجاج اور شور وغل کو کئی دن گزر چکے ہیں سعودی عرب اس معاملے میں مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے گویا کہ سعودی حکومت نے ابھی تک بھارتی احتجاج کو اہمیت ہی نہیں دی۔ یہ بھارت کے اس تاثر کی صریح نفی ہے جس کو سوشل میڈیا کی پراسرار آئی ڈیز کے ذریعے ہوا دی جا رہی تھی کہ سعودی عرب نے کشمیر پر بھارت کا موقف من وعن تسلیم کر لیا۔ اس سے کچھ ہی عرصہ پہلے او آئی سی نے ایک ورچوئل اجلاس میں کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کا بھارت نے برا منایا تھا اور بھارتی اخبارات نے اسے غیر معمولی قرار دیا تھا۔ اس دوران ایک اور غیر معمولی پیش رفت یہ دیکھنے کو ملی کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اور عالمی اسلامی فوجی اتحاد کے کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف نے پاکستانی سفارت خانے میں کشمیر کے بارے میں منعقدہ ایک اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ مودی حکومت کشمیریوں کا عزم توڑنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کشمیر ہر پاکستانی کے دل کے قریب ہے ہم نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو قریب سے دیکھا ہے۔ نریندر مودی کی فاشسٹ اور جابرانہ حکومت کشمیریوں کا عزم توڑنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف اس وقت سعودی حکومت اور سعودی قیادت میں کام کرنے والے ایک ڈھانچے سے وابستہ ہیں۔ گوکہ ان کا اصل تعارف پاکستان کا شہری اور اس کی افواج کا سابق سربراہ ہونا ہے مگر موجودہ پوزیشن میں وہ سعودی عرب کے معاون اور ماتحت ہیں۔ اس پوزیشن کے ساتھ سعودی عرب میں یوں کھل کر ان کا بھارت کو ہدف تنقید بنانا اور کشمیریوں کے حق کی دو ٹوک انداز میں وکالت کرنا گہری معنویت کا حامل ہے۔ سعودی عرب جیسے نظام میں یہ ریاست کی مرضی اور منشا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اسے سعودی عرب کی ریاست اور حکومت کی سطح پر کشمیر کے حوالے سے ایک مثبت ابتدا کہا جا سکتا ہے۔