اپنی انا کا ’’بائیکاٹ‘‘ کب کریں گے؟

150

اِس وقت کئی قسم کی جذباتی خبریں آرہی ہیں اور جواب میں جذباتی نعرے اور بیانات بھی۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’مسلم قوم اب ایک جذباتی قوم بن چکی ہے؟‘‘ اکثر ایسا ہی دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ ثبوت کے طور پر آپ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو دیکھیں، اس کا استعمال اب زیادہ تر اِسی طرح کے کاموں کے لیے کیا جارہا ہے۔ بلکہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہمارا اکائونٹ اس پلیٹ فارم پر نہیں ہے تو ہم اپنی بات کو دوسروں تک نہیں پہنچا پائیں گے۔ یا یہ کہ ہماری آواز حکومت تک نہیں پہنچ پائے گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کی ہر بات، آپ کی حرکت، آپ کا طریقہ، آپ کی سوچ، آپ کی معاشرتی زندگی اور طور طریقے وغیرہ، سب کے بارے میں انہیں علم ہے۔ اور ضرورت پڑتی ہے تو حاصل بھی کر لیتے ہیں۔ اور انہیں آپ کے بارے میں کسی بھی طرح کی معلومات حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
اس روئے زمین پر جب سے حق کا بولا بالا ہوا ہے تب ہی سے مخالفت بھی شروع ہوئی ہے اور رہتی دنیا تک حق اور مخالفت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ حق پسند ہمیشہ سنجیدگی سے حق پر قائم رہیں گے۔ اور مخالف گروہ ہر دور میں حق کے خلاف ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آئیں گے۔ اور جب صورتِ ایسی ہو تو ہر دور میں ہم حق پر قائم رہنے والوں کا طریقہ اپنا کر ہی سنجیدگی سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بہتر طریقہ اسوۂ رسولؐ ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں جس جس طریقے کو ہم نے چھوڑا اُس اُس معاملے میں ہم بے بسی و بے کسی کا شکار ہو رہے۔ اور اکثر معاملے میں تو ہم ذلیل و خوار بھی ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے ہم موجودہ صورتِ حال پر غور کریں۔ ایک مخالف گروہ نے ہمیں جذباتی طور پر مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ اور ہم جذبات میں بہہ گئے۔ ہم نے بھی مخالفت شروع کر دی۔ کیا؟ فلاں فلاں پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرو۔ بلکہ کچھ ملّی تنظیموں کی جانب سے باضابطہ بائیکاٹ کے اعلانات بھی کیے گئے۔ جن جن اشیاء کی تصاویر کے ساتھ بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ میں نے غور سے دیکھا تو ان میں سے کسی چیز کی ہمیں ضرورت نہیں تھی اور نہ ہے۔ ہم نے بلا ضرورت صرف غلط شوق یا بے جا شوق میں دکھاوے کے لیے اسے اپنے گھروں میں داخل کیا ہے۔ کیا یہ فضول خرچی کے ضمن میں نہیں آتا ہے اور فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی نہیں ہیں؟
اِنَّ المُبَذِّرِینَ کَانُوا اِخوَانَ الشَّیَاطِینِ وَکَانَ الشَّیطَانُ لِرَبِّہِ کَفُورًا (27)
اب غور کریں کہ ہم نے بھائی بندے کس کو بنا رکھا ہے؟ اور ہمارا انجام کیا ہونے والا ہے؟ ہم نے خود جن کو پہلے سے بھائی بنا رکھا ہے۔ اب اس کے اشیاء کا بائیکاٹ کرنا کیا معنی؟ غلطی ہماری۔ قصوروار کون؟
ہمارا علم اور فہم ابھی یہاں تک ہی پہنچا ہے کہ سوشل میڈیا پر فوٹو، ویڈیو جیسے کوئی شخص صحرا میں وضو کر رہا اور نماز ادا کر رہا یا کوئی دیگر پیغام پوسٹ کرکے نیچے ایک جذبانی نعرہ لکھ دیتے ہیں۔
’’اگر آپ مسلمان ہیں تو اسے لازمی شیئر کریں‘‘۔
جی ہاں۔ آپ کی حمیت جوش میں آتی ہے اور بغیر لمحہ گنوائے، شیئر کرنے لگتے ہیں۔
یہ ہے طرز مسلمانی!
وہ پوسٹ بھی آپ لوگوں نے پڑھ ہی لی ہوگی، جس میں کسی بزرگ ہستی نے مغرب کی اذان دو بار کہلوائی تو لوگ لڑنے کے لیے آگئے۔ جب کہ پہلی اذان پر کوئی نہیں آیا۔
یہ ہے طرز مسلمانی!
خوشی، محبت، قربانی کسے کہتے ہیں؟
مسلم قوم کی خوشی سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع ہوتی ہے اور اُن کی انتہا کیا ہے؟
محبت کسے کہتے ہیں؟ قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ کس حد تک قومِ مسلم میں دکھائی دیتا ہے؟ وہ آپ بھی دیکھ ہی رہے ہیں۔
قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِبکُمُ اللَّہُ وَیَغفِر لَکُم ذُنُوبَکُم وَاللَّہُ غَفُورٌ رَّحِیم
(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
اب رہی بات قربانی کی۔ قربانی ہم جانور کی کرتے ہیں، اپنے نفس کی نہیں۔ کیسے؟ اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا ہے تو ایک دو جانور خرید کر ذبح کر دیتے ہیں۔ آس پڑوس میں گوشت تقسیم کر دیتے ہیں۔ دوست احباب کے ساتھ خور و نوش سے لطف اندوز ہو لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں قربانی شاید اِسی کو کہتے ہیں۔ دوسرے دن اگر اتفاقاً پڑوسی کے یہاں کسی وجہ سے پانی کی دقت آگئی اور انہوں نے آپ سے چند بالٹی پانی طلب کر لیا تو پیشانی پر بل پڑ جاتا ہے۔ اور اندر ہی اندر یہ کہ ’’ڈرائنگ روم گیلا کر دیا۔ راستہ پورا خراب کردیا، کیسے پڑوسی ہیں؟ بڑے… قسم کے پڑوسی ہیں‘‘ جیسے جملے اُن کے دل و دماغ میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ تو کیا اِسی کوقربانی کہتے ہیں؟
’’یہ حالیہ زندگی کا سب سے بڑا سچ ہے کہ آج آپ جہاں بھی ہیں، اپنے گزرے ہوئے کل میں لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ہیں، اور آئندہ پندرہ برسوں میں آپ جہاں ہوں گے، اپنے آج لیے گئے فیصلوں کی وجہ سے ہوں گے‘‘۔
اب ذرا غور کریں بلکہ خود کا جائزہ لیں، کیا محبت کے نام پر ہم نے غلط طور طریقے کو رائج نہیں کر رکھا ہے؟ ختنہ جیسی سنّت کو ادا کرنے میں اکثر خاندان کئی کئی روز کے اوقات اور ہفتوں کی آمدنی خرچ کر ڈالتے ہیں۔ ایک تو محبت کا طریقہ غلط ، دوسرا خرچ کا طریقہ غلط۔ نتیجہ بھی غلط آئے گا۔ اسی طرح نکاح کے معاملے میں غیرضروری محبت جتائی جاتی ہے، ہفتوں وقت لگایا جاتا ہے۔ مہینوں اور بعض دفعہ برسوں کی کمائی خرچ کی جاتی ہے۔ کس لیے؟؟ لوگوں کا کھایا ہے تو کھلانا بھی پڑے گا۔ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ فضول خرچی کرنے میں شیطان کو اپنا سگا بھائی بنا لیں گے۔ بلکہ اُس سے بھی بڑھ کے۔ نتیجہ بھی شیطانی اعمال کی شکل میں آئے گا۔ محبت اور قربانی کیا ہم اسوۂ رسول کے مطابق کرتے ہیں؟ نہیں کرتے ہیں۔
ان سب بنیادوں عملوں ساتھ ہی ہمارے معاملاتِ زندگی کیسے ہیں؟ ذرا اُس کا بھی جائزہ لیں۔ اس میں تو نہایت ہی کورے ہیں۔ لین دین کا معاملہ تو نہایت ہی غیر تسلی بخش ہے۔ حقوق اللہ تو اُمید ہے کہ بخشے بھی جاسکتے ہیں لیکن حقوق العباد کے معاملے میں تو ہم ضرور پھنسنے والے ہیں۔ نکاح کے موقع پر ہونے والے غیرضروری رسم و رواج نے ہمیں مالی طور پر بھکاری بنا کر رکھ دیا ہے۔ اکثر خاندان کو ہم نے مقروض اور شاکی پایا ہے۔ پھر بھی فضول رسموں کو چھوڑنا گوارا نہیں ہے۔ ہائے ہائے ہائے
سب سے بڑا روگ
کیا کہیں گے لوگ