’’طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح اور اس کے اسباب‘‘

327

سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا: ’’زیادہ مبغوض اور زیادہ بری حلال چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے‘‘۔(ابنِ ماجہ، الحاکم و ابو داؤد)
حدیثِ نبوی ہے ’’نکاح کرو اور طلاق نہ دو اس لیے کہ طلاق دینے سے عرش ہلتا ہے‘‘۔ دور حاضر میں گھر کی اساس کو ’’مغربی تمدن‘‘ اور ’’نئی تہذیب‘‘ نے پاش پاش کردیا ہے اور گھریلو اور معاشرتی نظام میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اور جس سے گھریلو پرسکون ماحول فاسد ہوا ہے جس سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ عورتوں کو گھر کے پرسکون ماحول سے باہر نکال کر دفاتر اور این جی اوز کی زینت بنا کر بچوں اور شوہروں کے حقوق پامال کیے گئے ہیں۔
’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ کے بجائے مساوات کا سبز باغ دکھا کر صنفِ نازک پر ظلم ڈھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت کو تخلیق کیا ان کو وجود بخشا اس لیے وہ اس کے مزاج وفطرت سے بخوبی واقف ہے۔ پھر قرآن مجید کی تعلیمات میں اپنے نبی محمدؐ کی زبانی ازدواجی رشتے کو استوار کرنے کے طریقے بتاکر امہات المؤمنین کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار کر امت مسلمہ کو تعلیم بھی دی۔ میرے نبیؐ نے اپنے سے پندرہ سال بڑی خاتون سے شادی کی اور بے مثال ازدواجی زندگی گزاری اماں خدیجہؓ نے بھی بیوی ہونے کا حق ادا کردیا اور عورتوں کو سمجھا دیا کہ شادی کے بعد اس کا شوہر ہی سب کچھ ہے۔ اپنا تن من دھن آپؐ پر نثار کردیا۔ سب سے پہلے آپؐ پر ایمان لائیں اور نبوت کے بار گراں میں بھی قدم بقدم اپنے عظیم شوہر کے ساتھ رہیں۔ اسی طرح تمام امہات المومنین نے بھی مقدور بھر پیارے نبیؐ کے ساتھ بہترین ازدواجی زندگی گزاری۔ امی عائشہ صدیقہؓ نے بھی محبوب بیوی ہونے کے باوجود کنیز کی موجودگی کے باوجود اپنے محبوب عظیم شوہر کی ہر ممکن خدمت کی۔ دوسری طرف میرے نبیؐ نے بھی شوہر ہونے کا حق ادا کر کے بتایا کہ گھر بنانے میں میاں بیوی دونوں کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ گھر جنت بن سکے۔ یعنی والدین صرف بیٹی ہی کی نہیں بلکہ بیٹے کی بھی ایسی دینی و دنیاوی تربیت کریں کہ بہترین معاشرہ جنم لے، لیکن ناس ہو میڈیا کا جس نے فحش اور نازیبا ڈرامے دکھا کر اور رشتوں کا احترام ختم کرکے گھر توڑنے کے نت نئے طریقے بتاکر گھر کے پاکیزہ ماحول کو درہم برہم کر دیا ہے۔
حدیثِ نبوی ہے ’’کہ عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، اپنے ناموس و عزت کی حفاظت کرتی ہو اور شوہر کی اطاعت کرتی ہو تو وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔ ( ابنِ حبان ترغیب) صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ’’میرے نبیؐ نے جہنم میں عورتوں کو مردوں سے زیادہ دیکھا۔ جب آپؐ سے اس کی وجہ پوچھیں گئی تو معلوم ہوا ’’تکفرن العشیر‘‘ یعنی شوہر کی ناشکری کرنے کی وجہ سے‘‘۔ غرضیکہ طلاق اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے اگرچہ حلال ہے۔ بلا ضرورت طلاق شدہ گھرانے کے مرد وعورت دونوں ہی پریشان رہتے ہیں۔ بہت سے دوسرے گناہوں کا راستہ نکل آتا ہے، دین ودنیا خراب ہو جاتے ہیں جوڑ اور ربط محمود ہے۔ سو جہاں تک ہوسکے میاں بیوی اسلامی زندگی گزاریں اور جہاں تک ہوسکے طلاق کی صورت پیدا نہ ہونے دیں۔ خیال رہے کہ صرف عورتوں پر ہی مردوں کے حقوق نہیں ہیں بلکہ مردوں پر بھی عورتوں کے حقوق ہیں کہ وہ بھی اپنی بیویوں کے راحت و آرام کا خیال رکھیں۔ ہر وقت ان سے جانوروں کی طرح کام لینا بلاوجہ سب کے سامنے بے عزت کرنا، حقارت سے بات کرنا، اس کے گھر والوں کی بے عزتی کرنا، بات بات پر طعنے دینا یہ وجوہات بھی طلاق کا سبب بن سکتی ہیں اس لیے میرے نبیؐ کی ازدواجی زندگی کو مثال بنا کر عمل میں لائیں تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ سکیں۔