واشنگٹن (تجزیہ : مسعود ابدالی) فرانس میں مسلمانوں کی فکری تطہیر کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ یورپ کے سیکولر طبقے کو شکایت ہے کہ گھروں اور مدارس میں دینی تعلیم مسلمان نونہالوں کو کم عمری سے ذہنی طور پر انتہا پسند بنارہی ہے۔ مسلم گھرانوں میں قران کریم کے نسخوں کو بہت عزت احترام سے اونچے مقام پر رکھا جاتا ہے۔ قبل از تلاوت وضو اور دوران مطالعہ خاموشی اور ادب سے اس ‘کتاب’ کے بارے میں ایک خاص تاثر پیداہوتا ہے اور بچوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اللہ کا کلام حد درجہ احترام کا مستحق ہے اورا س کی ہلکی سی توہین بھی انہیںگوارا نہیں۔ اسی طرح گھروں، مساجد، اور خوشی وغمی کی مجالس میں نبی مہربان صلعم کا ذکر بہت عزت واحترام سے کیاجاتا ہے اور لوگ روزمرہ معاملات میں سنت سے مثالیں دیتے رہتے ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ توہین رسالت کا خفیف سا پہلو بھی مسلم نوجوانوں کو مشتعل کردیتا ہے ا ور وہ انجام سے بے پرواہ ہوکر انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ توہین یا Blasphemy کے حولے سے پرتشدد واقعات کی مسلمان حمایت اور حوصلہ افزائی تو نہیں کرتے لیکن وہ اسے گستاخی کا ردعمل قرار دیتے ہوئے پر تشدد کاروائیوں کی غیر مشروط مذمت بھی نہیں کرتے بلکہ ان کا عام موقف یہی ہے کہ جب تک تحفظِ ناموس رسالت کے لیے موثر قانون سازی نہیں ہوگی،شدت پسندی فروغ پاتی رہی گی۔ صدر ماکرون اور ان کے رفقا کا کہنا ہے کہ فرانسیسی مسلمان بچے اس ‘اندازفکر’ سے متاثر ہورہے ہیں اور وہ بھی اپنے عقائد کے بارے میں بے حد حساس ہیں۔ اس حوالے سے دیندار اور آزاد خیال طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اس ضمن میں ایک نیا غیر تحریری ضابطہ’’دہشت گردی کے لیے معذرت خواہانہ انداز’’یا Apology for Terrorismوضع کیا گیا ہے۔ جس کے تحت خفیہ اداروں کے ایجنٹ بچوں کے سامنے دہشت گرد کارروائی کی پوری روداد بیان کرتے ہیں۔ واقعات کی تصاویر اور وڈیو کلپس دکھا کر ماہرین نفسیات ردعمل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر بچے کی جانب سے نفرت و مذمت کا برملا اظہار نہ ہو تو اسکا مطلب یہ لیا جاتاہے کہ قتل و خونریزی کے واقعے کو لاشعوری طور پر بلاسفیمی کا منطقی ردعمل سمجھا جارہا ہے۔ حالانکہ انبیا سمیت کی بھی فرد سے تمسخر یا خاکہ کشی کوئی بری بات ہے ہی نہیں جس پر کسی منفی ردعمل کا اظہار کیا جائے۔ بلاسفیمی کی بنیاد پر کسی قتل کی غیر مشروط مذمت سے ہچکچاہٹ انتہا پسندی کی علامت ہے جس کا بروقت علاج ضروری ہے۔ یہ منطق اس لحاظ سے احمقانہ ہے کہ تحقیق کرتے ہوئے ہر جرم کے ممکنہ محرکات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور قتل جیسے سنگین جرم کی سفاکیت، قتل عمد، قتل خطا، وقتی اشتعال کے زیر اثر قتل، بلا نیت و ارادہ قتل کی بنیاد پر درجہ بندی کی گئی ہے جس کی سزائیں مختلف ہیں۔ چنانچہ بلاسفیمی کی بنیاد پر تشدد کے ممکنہ محرکات پر بحث کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ قتل کا دفاع کیا جارہا ہے۔ سرقلم کرنے اور انسانی جسم کی تکہ بوٹی جیسے خوفناک مناظر کی وڈیو کلپس کے ذریعے مکمل منظر کشی سے دس گیارہ سال کے نوخیز بچے دہشت زدہ ہوجاتے ہیں اور تفتیش کاروں کو تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے جس پر انہیں انتہاپسندی و دہشت گردی سے متاثر قراردے دیا جاتا ہے۔ والدین نے شکایت کی ہے کہ تفتیشی مراکز سے واپس آنے والے بچے بے خوابی کاشکار ہیں۔ اپنی ماں کو باورچی خانے میں چھری سے سبزی کاٹتے دیکھ کر بد حواس ہوجاتے ہیں۔ بہت سے بچے تنہائی میں ڈر کر چیخنے لگتے ہیں۔دوسری طرف سراغرسانی اداروں کے حکام ان بچوں کے والدین اور گھر کے بزرگوں کو تحقیقات کے لیے بار بار بلا رہے ہیں۔ ان سے گھر پر دیکھے جانے والے ٹی وی چینلز کی تفصیل طلب کی جارہی ہے۔ گھر میں موجود کتب خاص طور سے مذہبی مواد اور مجموعہ احادیث کو کھنگھالا جارہا ہے۔گھر کی وڈیو لائبریری اور دستاویزی فلموں کے ذخیرے کے بارے میں پوچھ گچھ ہورہی ہے۔ ساری دنیا کی طرح فرانس میں بھی انتہا پسندی کی کوئی تعریف نہیں۔ انسانی حقوق کے فرانسیسی ماہر یاسر لواشی نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ باقاعدہ باجماعت نماز ادا کرنے والے نوجوانوں کو انتہا پسند قراردیکر ان کی حرکات و سکنات کو خوردبین کے نیچے رکھ لیا گیا ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا تھا کہ ‘محمد’، ‘عبدل’ اور ‘ابو’ نام رکھنے والے امریکیوں کی بعض اوقات وفاقی تحقیقاتی ادارہ (FBI)خصوصی نگرانی کرتا ہے۔ نسلی، معاشرتی و مذہبی بنیادوں پر اس قسم کی فہرست بندی کو profilingکہا جاتا ہے انتہا پسندی کے مبہم الزام سے گلو خلاصی کیساتھ فرانسیسی مسلمانوں کو اب یہ بھی ثابت کرنا ہوگاکہ دہشت گردی کے لیے انکا انداز معذرت خواہانہ نہیں۔ اس الزام کی تفتیش کے لیے جو طریقے بلکہ ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے اس سے نوخیز بچے خود ہی دہشت کا شکار ہوگئے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ذہنی تشدد فرانسیسی مسلمانوں کی اکثریت کو نفسیاتی مریض بنادیگا۔ترک پارلیمان کے اسپیکر مصطفیٰ شنتوپ نے ذہنی تشدد کے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مداخلت کی درخواست کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں جناب مصطفیٰ نے کہاکہ فرانسیسی خفیہ پولیس نے ترک اور شیشان نڑاد نونہالوں کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ دس سال کے بچوں کو ذہنی تطہیر و تفتیش کے نام پر کئی کئی دن حراست میں رکھاجارہاہے جس کی وجہ سے ترک نژاد فرانسیی کمیونٹی سخت اضطراب کا شکار ہے۔ ترک رہنما کا کہنا ہے کہ ذہنی تشدد کی یہ مہم انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔