علامہ اقبال کاکلام و پیغام آج بھی زندہ ہے، قائد اعظم جیسے لیڈر کی ضرورت ہے

137

کراچی (رپورٹ:جہانگیر سید)علامہ اقبال کا کلام و پیغام آج بھی زندہ ہے، ہمیں قائداعظم جیسے لیڈر کے ضرورت ہے۔جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقبال شناسی کے حوالے سے عالمی شہرت کے حامل ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے امت مسلمہ پر واضح کردیا تھا کہ مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے، شاید قوم علامہ کے پیغام کو سمجھ ہی نہیں پائی کہ علامہ نے ہمیں خود ی اور خودداری کے ساتھ جینے کا درس دیا، علامہ اقبال کی فکر کلی طور پر قرآن سے ماخوذ ہے جسے ہم نے پس پشت ڈال دیا ہے، اقبال ناشناسی کا اصل سبب یہی ہے کہ ہم اقبال کی عظمت کو سمجھے بنا ہی اس کی عظمت کے گیت گارہے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ علامہ اقبال کا فکری وجود ہمارے نظام میں عملی حقیقت کا روپ کیوں نہ دھار سکااس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اقبال کے نزدیک انسانیت کا معیار بلند تر مقاصد کے لیے جینا ہے،اقبال نے اپنے شعر کے اس مصرعے میں بلند اور پست معیار حیات کے فرق کو بالکل واضح کردیاہے۔شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور ،ہم نے کرگس یعنی گدھ کا چلن اپنایا اس کے برخلاف علامہ نے شاہین کی بلندی پرواز کا پیغام دیا، ظاہر ہے پست سوچ اوراقبال کی بلندطرز فکر میں کوئی تال میل نہیں تھا لہٰذا اقبال کا عملی تعلق ہم سے قائم نہ ہوسکا۔ ایک اور رخ سے دیکھیں کہ علامہ اقبال استغناء کو معراج مسلمانی قرار دیتے ہیں، عملی ثبوت کے طور پر علامہ نے اپنی زندگی میں حقیقی ضرورت سے زیادہ کبھی کچھ نہیں کمایا، دوسری جانب ہمارے ارباب اختیار ابتدا ہی سے قارون کے خزانوں کی تلاش میں رہے، اس مادہ پرستی کے ماحول میں علامہ کا علمی و عملی وجود ہم یا ہمارے کسی بھی نظام ہائے حیات میں دیکھیں کہ اقبال کی تعلیمات ہماری انفرادی اور اجتمائی کردار کا حصہ کیوں نہ بن سکی،وجہ یہ ہے کہ قوم کا بگاڑ اوپر کے حکمرانوں سے شروع ہوتا ہے جنہوں نے ابتدا ہی سے ہوس زر اور جاہ طلبی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے، یہ وبا بتدریج پوری قوم میں سرائیت کرگئی ہے۔رفیع الدین ہاشمی کا کہنا تھا کہ اس کرپٹ طبقے نے علامہ کے پیغام کو اپنے لیے زہر قاتل سمجھا اس کی حقیقی روح سے عام آدمی کو واقف ہونے ہی نہیں دیا۔ علامہ اقبال کی حیات و افکار پرگہری نظر رکھنے والے کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر خیال آفاقی نے اپنا نکتہ نظرپیش کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال نے اپنے کلام میں نوجوانوں کو مخاطب کیا ہے جب کہ چغادریوں نے علامہ کے پیغام کو نوجوانوں تک پہنچنے نہیں دیا اور اسے مخصوص حلقوں تک محدود رکھا، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ایک دوسرے کو اپنے مقالے سنائے جاتے ہیں، تقاریب سجا کر تقاریر کی جاتی ہیں، ریڈیو ٹی وی پر لیکچر دیے جاتے ہیں۔ اخبارات کے خصوصی ضمیموں میں اپنی تحاریر سجاتی ہیں، ایک دوسرے سے داد لیتے ہیں علامہ کی تعلیمات کو ہمارے اساتذہ نے حقیقی معنوں میں اپنے طلبہ تک نہیں پہنچایا، صرف رسمی معلومات فراہم کیں طلبہ کو اتناہی بتایا جاتا ہے کہ علامہ نے پاکستان کی آزادی کا خواب دیکھا تھا بچہ تو خوا ب کو خواب ہی سمجھتا ہے، دوسرا یہ کہ پاکستان کو آزاد کرایا یہ بات بھی غلط ہے جب پاکستان کا وجود ہی نہیں تھا توآزادی کیسی؟ علامہ نے مسلمانان ہند کو قیام پاکستان کے لیے بیدار کیا ،مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم قیادت میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت قائم کرکے دیکھادیا، آج بھی ہم 14 اگست کو یوم آزادی کا نام دیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کی تعلیمات کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں، پاکستان بننے کے بعد ہمارے نظام تعلیم میں بھی ارباب اختیار نے مخصلانہ کام کیا نہ کام کرنے والوں کو کچھ کرنے دیا، یہی وجہ ہے کہ علامہ کا عملی وجود کسی شعبے میں نظر نہیں آرہا ۔سابق چیئرمین شعبہ جامعہ کراچی ، ایڈیٹر ریسرچ جرنل پروفیسر ڈاکٹر اسحاق منصوری نے کہا کہ ہماری قومی زندگی میں علامہ اقبال کا عمل دخل واجبی سا رہ گیا ہے لیکن تحریک پاکستان میں علامہ اقبال کا پیغام اور ان کی سحر انگیز شخصیت برصغیر کے مسلمانوں کی عملا دل کی دھڑکن بن چکی تھی، قائداعظم کی ولولہ انگیزقیادت میں مسلمانان ہند نے انگریز اور ہندو ں کی غلامی سے آزادی حاصل کرکے ایک علیحدہ مسلم ریاست پاکستان کو قائم کر دکھایا، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، علامہ کا کلام اور پیغام ہم میں آج بھی زندہ و پائندہ ہے، ہمیں قائد اعظم جیسے عظیم لیڈر کی ضرورت ہے، علامہ مایوسی کو کفر سمجھتے تھے انہوںنے بالکل درست فرمایاذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی۔