فکرِ اقبال اور پاکستان کا حکمران طبقہ

233

مصورِ پاکستان علامہ اقبال کے 143 ویں یوم پیدائش پروزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ علامہ اقبال کے افکار سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم علامہ اقبال کی فکر پر عمل پیرا ہو کر قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی یوم اقبال کی مناسبت سے کلام فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم اقبال کے فلسفۂ خودی پر عمل کرکے ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں، علامہ اقبال مصورِ پاکستان ہیں، شاعر مشرق ہیں۔ وہ ہمارے اخبارات کے صفحات پر موجود ہیں، وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر موجود ہیں، ان کی شاعری تعلیمی درجوں کے نصاب کا حصہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال ہماری اجتماعی زندگی میں کہیں موجود نہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
اقبال کے یہاں آزادی کا مطلب صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ وہ روحانی آزادی اور تہذیبی آزادی کی بھی بات کرتے ہیں مگر پاکستان کے حکمران طبقے نے ہمیں ہر طرح کی غلامی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ ہمارے حکمران طبقے کی نظر میں نفسِ امارہ سے آزادی اور نفس مطمئنہ کے حصول کی کوئی اہمیت ہی نہیں بلکہ ہمارا فوجی اور سول حکمران طبقہ قومی زندگی میں ایک بہت بڑے نفسِ امارہ کی علامت بنا ہوا ہے اور اس نفس امارہ کے خلاف جہاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کے بغیر ہم فکرِ اقبال کے مطابق روحانی آزادی حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ اقبال نے ہمیں تہذیبی سطح پر مغرب سے آزادی حاصل کرنے کا درس دیا ہے مگر ہمارے حکمران طبقے نے ہمیں ہر معنوں میں مغرب کا غلام بنایا ہوا ہے۔ ہمارے یہاں فوجی آمریت آتی ہے تو مغرب کی مرضی سے۔ جمہوریت بحال ہوتی ہے تو مغرب کے حکم سے۔ انتخابات ہوتے ہیں تو مغرب کے اشارے پر۔ انتخابات نہیں ہوتے تو مغرب کی رضا مندی سے۔ مغرب سے ہمارے مغلوب ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے ملک کو مغرب کے معاشی اور مالیاتی اداروں کا غلام بنایا ہوا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے مقروض ہیں۔ عالمی بینک کے مقروض ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ اب ہم قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لیتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
مگر پاکستان کے حکمران طبقے پر اقبال کے اس مشورے کا کوئی اثر ہی نہیں۔ عمران خان فرما رہے ہیں کہ ہم اقبال کی فکر پر عمل کرکے قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہیں اقتدار میں آئے ہوئے اب دو سال ہوگئے ہیں وہ ذرا بتائیں تو انہوں نے ان دو برسوں میں اقبال کے کس مشورے پر عمل کیا ہے؟ صدر مملکت عارف علوی کا کہنا ہے کہ ہم اقبال کے فلسفۂ خودی پر عمل کرکے ترقی کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ صدر مملکت عارف علوی سمیت ہمارے کسی حکمران کو اقبال کے فلسفۂ خودی کی ہوا بھی نہیں لگی۔ اقبال پوری امت مسلمہ کے شاعر ہیں مگر ہمارے حکمران طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے اقبال کو ایک سطح پر ’’اقبال سیالکوٹی‘‘ بنادیا ہے۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اب یوم اقبال پر صرف سیالکوٹ میں تعطیل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال عمل کے شاعر ہیں اور ان کے یوم پیدائش کو تعطیل سے وابستہ کرنا ٹھیک نہیں، ایسا ہے تو پھر ملک میں 14 اگست کی بھی تعطیل نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ دن قائد اعظم کے عمل کی ایک بہت ہی بڑی علامت ہے۔ اصل میں قصہ یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران طبقہ فکرِ اقبال سے خوف زدہ ہے۔ فکرِ اقبال عام ہوگئی تو پھر ملک میں کوئی جرنیلوں، بھٹوز، شریفوں اور عمران خانوں کے گرد طواف نہیں کرے گا۔ اقبال اپنے ہر قاری کو صرف خدا، محمد عربیؐ، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے جوڑتے ہیں۔ اقبال ہر جھوٹے خدا کی تردید کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے صاف کہا ہے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الااللہ