ادریس بختیار کے شاہ جی بھی چلے گئے (آخری حصہ)

154

پارلیمنٹ ہائوس ہو یا ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم ہو یا چیئرمین سینیٹ کا آفس انہوں نے ہر جگہ اپنی مرضی دکھائی ایک بار چیئرمین سینیٹ کی عدم موجودگی میں ان کے آفس میں ان کی کرسی پر بیٹھ کر گرین ٹیلی فون سے انہیں ہی فون ملادیا اور کہا کہ آپ کے آفس سے بات کر رہا ہوں وہ چیئرمین سینیٹ حیران پریشان۔ عدالتی نوٹس ملا تو ہرکارے سے کہا جس نے نوٹس بھیجا ہے اُسے ہی جاکر دے دو، ایسے ہزاروں واقعات ہیں ان کے ساتھ کی گئی راز کی بے شمار باتیں اور بے شمار یادیں ہیں۔ ایک بار ایسا ہوا کہ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ بہاول پور گئے‘ رات گئے واپسی ہوئی، لمبے سفر سے تھکے ہوئے مگر جب گھر کی دہلیز پر پہنچے تو تھکاوٹ کا اثر چھپا کر چہرے پر مسکراہٹ لائے تو گھر والوں نے کہا آپ تو بالکل فریش لگ رہے ہیں۔ یہ واقعہ اگلے دن آکر سنایا اور کہا کہ اگر میں تھکاوٹ کا تاثر لیے گھر جاتا تو گھر والے پریشان ہوجاتے انہیں پریشان ہونے بچانے کے لیے خود پر فریش ہونے کی کیفیت طاری کی اپنے پوتوں، نواسوں سے
بہت محبت کرتے تھے، گھر جاتے تو زین، بلال، زینب اور آمنہ کے لیے ضرور چاکلیٹ‘ کھلونے یا کچھ اور ضرور لے جاتے۔ شاہ صاحب ایک بار کامونکی گئے ایک دینی جماعت کے اجتماع کی تقریب کی کوریج کے لیے وہاں انہیں سگریٹ پینے سے منع کیا گیا کہنے لگے ’’میں آپ کی تقریب کی کوریج کے لیے آیا آپ کے فتوے کی اطاعت کے لیے نہیں آیا اسی تقریب میں ایک اشاعتی ادارے کے مالک بھی ایک سیشن کے لیے مہمان خصوصی تھے، جب وہ خطاب کے لیے کھڑے ہوئے تو شاہ صاحب نے انہیں خطاب نہیں کرنے دیا اور کہا کہ پہلے کارکنوں کی تنخواہیں دو پھر یہاں خطاب کرنا۔ سیکڑوں ایسی باتیں ہیں۔ شاہ صاحب سے بڑا ہی راز و نیاز رہا مگر ایک راز انہوں نے نہیں بتایا کہ عمر کے آخری حصے میں صحافتی خدمات کے معاوضے کے معاملے میں خاموش کیوں رہے؟ اب وہ اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں اللہ غفور اور رحیم ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعاء ہے بے شمار باتیں ہیں جن کا ذکر کیا جاسکتا، بس یہی ہے کہ وہ سوگئے اور ہم سب کی محفلیں بھی اداس کرگئے، اب کسی محفل میں سعود ساحر نہیں ملیں گے۔
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے