مجبور تھے ہم مجبور ہیں ہم

286

وطن عزیز میں سیاسی گہما گہمی زوروں پر ہے۔ اپوزیشن کے پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ کے پلیٹ فارم سے احتجاجی جلسے جاری ہیں۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام اور حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے پسے ہوئے طبقات بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے برسر احتجاج ہیں۔ گزشتہ ماہ سرکاری ملازمین اور محنت کشوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں اپنے حقوق کے لیے دھرنا دیا۔ یہ دھرنا ختم ہی ہوا تھا کہ اسلام آباد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا دھرنا سات روز تک جاری رہا۔ وہ تنخواہوں میں اضافے اور سروس اسٹرکچر طے کرنے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ اس ماہ کی چار تاریخ سے لاہور میں پنجاب بھر کے کسان حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ 5نومبر کو اس احتجاج نے اس وقت خونیں رنگ اختیار کرلیا جب انتظامیہ نے کسانوں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس فائر کیے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں کسان رہنما ملک اشفاق لنگڑیال بدھ کے روز شدید زخمی ہوگئے جو اگلے دن اسپتال میں انتقال کرگئے۔ کسانوں کے مطابق ان کے متعدد ساتھی ابھی تک لا پتا، گرفتار یا زخمی ہیں۔ لاہور میں کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے ملک اشفاق نے کہا تھا ’’بڑھتی ہوئی مہنگائی میں اب ہم جیسے چھوٹے درجے کے کسانوں کا گزارا نہیں ہورہا ہے۔ ایسے میں غریب کسان کیا کررہے ہوں گے؟ اب وقت آچکا ہے کہ حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے سب زمینداروں اور کسانوں کو میدان میں آنا چاہیے‘‘۔ کسان اتحاد کے جنرل سیکرٹری ملک ذوالفقار اعوان کا کہنا ہے کہ پولیس نے کسانوں پر بے رحمانہ تشدد کیا تھا، کسانوں پر کیمیکل ملا ہوا پانی پھینکا گیا جس سے کئی کسان انتہائی ز خمی ہوئے ہیں‘‘۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں اپوزیشن کے احتجاجی جلسوں کی کوریج تو زور وشور سے کی جارہی ہے جب کہ غریب کسانوں، ہیلتھ ورکرز اور محنت کشوں کے احتجاج کو اس طرح زیربحث نہیں لایا گیا۔
اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حکمران علاقائی اور عالمی آقائوں سے ملنے والی سپورٹ، طاقت اور اقتدار کو عوام کا استیصال کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سیاست دان ہوں یا جرنیل سب اپنی جائدادیں، دولت اور اولادیں بیرون ملک منتقل کررہے ہیں۔ یہ کام اس سرعت سے کیا جارہا ہے جیسے یہ طبقات پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی میں مبتلا ہوں۔ ساتھ ہی یہ لوگ اپنی اس رعایا کو بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیںجو ان کے اقتدار اور دولت آفرینی کا ذریعہ ہے، ان کی لوٹ کھسوٹ کا منبع ہے۔ حکومت ہو، اپوزیشن یا پھر اسٹیبلشمنٹ اب غریب عوام کو کسی پر بھروسا نہیں رہا۔ اس وقت ملک میں متوازی طور پر دو طرح کا احتجاج چل رہا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن، ججوں اور سیاست دانوں کا احتجاج ہے دوسری طرف پسے ہوئے طبقات اپوزیشن سے الگ، اپنے طور پر اس حکومت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جس نے ان کے روزوشب میں انگارے بھر دیے ہیں۔ وہ اپوزیشن اتحاد کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور نہ تحریک انصاف کی حکومت کو جسے اب کسی بھی طبقے کا اعتماد حاصل نہیں رہا ہے۔
پولیس نے ان غریب کسانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے جن کے شب وروز کی محنت سے بچھائے دستر خوان پر سب اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ لقمے توڑتا ہے۔ جو آتا ہے زرعی اصلاحات کے دعوے کرتا ہوا آتا ہے لیکن کسانوں کو ان کی محنت کا پورا صلہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کسانوں کا خون پسینہ ہی ہے جس سے معیشت کا پہیہ چلتا ہے لیکن بدلے میں انہیں بھوک، غربت اور فاقے ملتے ہیں۔ پاکستان کے قائم ہوتے ہی کسانوں سے ان کے تین دریا چھین کر بھارت کو دے دیے گئے اور انہیں ٹیوب ویل اور بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کے چکر میں لگادیا گیا۔ ہمارے کھیتوں کو کیمیائی کھاد، درآمد شدہ بیجوں اور مہنگی کیڑے مارادویات کی مارکیٹ بنادیا گیا ہے جس سے پیداواری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس مہنگی فصل کو تیار کرکے جب کسان فروخت کرنے کے مرحلے میں آتا ہے تو مل مالکان چاہے وہ چینی کے ہوں یا آٹے کے یا کسی اور جنس کے، ان کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں وہ نو آبادیاتی دور کی یاد تازہ کردیتا ہے۔
ستر برس سے زائد ہونے کو آرہے ہیں آج بھی مزارعت کے باعث کسان جاگیرداروں کو فصل کا ایک حصہ دینے کا پابند ہے چاہے فصل اچھی ہوئی ہو یا بری یا اس کے گھر میں فاقے بچھ جائیں۔ فصل کاشت ہونے سے پہلے کسان کو پتا نہیں ہوتا کہ اسے کیا قیمت ملے گی اور نہ فصل تیار ہونے کے بعد۔ فصل کی فروخت کا کوئی نظام تشکیل دینا کسی حکومت کی ترجیح کبھی نہیں رہا۔ آڑھت کے نظام کی اصلاح کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں۔ کسان اپنی محنت سے اچھی فصل تیار کرتا ہے تو قیمت گرادی جاتی ہے۔ ملکی کسان کو ہم چند روپے بڑھا کردینے کے روادار نہیں جب کہ باہر سے وہی جنس مہنگے داموں اور ان ممالک کی شرائط پرخریدی جاتی ہے۔ سندھ حکومت نے گندم کی قیمت دوہزار روپے فی من مقرر کی ہے جب یہی مطالبہ پنجاب کے کسانوں نے کیا تو انہیں پولیس کے بے رحم ڈنڈوں کے حوالے کردیا گیا۔
کسانوں سے ان کی فصلیں اونے پونے خرید کر انتہائی مہنگے داموں بیچنا سرمایہ دارانہ نظام کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ پاکستان میں گندم اور گنے کی فصلوں میں اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جہاں کسانوں سے کوڑیوں کے مول خریدی گئی گندم اور گنا ملوں میں پراسیس کرنے کے بعد عوام کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سرمایہ داروں نے صرف چینی کی مد میں عوام اور سرکاری خزانے کو 400 ارب روپے کا ٹیکہ لگایا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکس عائد کریں۔ بیج، کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کے مہنگا ہونے کی وجہ ان پر عائد جنرل سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ہی کا نتیجہ ہے کہ پٹرول اور بجلی کے شعبے کو نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے آئے دن بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں پیداواری لا گت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو زرعی زمین کے مالک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسان کو زمین فصل کے ایک مخصوص حصے یا مخصوص رقم کے بدلے کرائے پردے سکے جس کے نتیجے میں نقصان کی صورت میں پورا نقصان کسان کے کھاتے میں جاتا ہے اور منافع کی صورت میں بھی وہ مکمل منافع کا مالک نہیں بن سکتا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں بھی کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ مارچ 2018 میں جب مہاراشٹر سے 35ہزار کسانوں نے ممبئی کی طرف مارچ کیا تھا تو بیش تر کسان ننگے پیر تھے جن کے پیروں سے خون رس رہا تھا جب ان سے ننگے پیر ہونے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب تھا کہ سوائے چپلوں کے وہ کچھ اور نہیں خرید سکتے اور یہ چپلیں پہلے چند کلو میٹر ہی میں جواب دے گئیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی نہیں سب سے بڑی غربت بھی ہے جہاں کسانوں میں اجتماعی خود کشیوں کا رحجان بڑھتا جارہا ہے۔ 1995 سے تا حال بھارت میں تین لاکھ سے زائد کسان خودکشیاں کرچکے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ قرضے تھے۔ سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھر میں جہاں دیگر شعبوں میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے وہیں زراعت اور زرعی زمین کے حوالے سے بھی نا کام ہوچکا ہے۔ اسلام پیداوارکے لیے استعمال ہونے والی اشیا پر ٹیکس عائد نہیں کرتا جس کے نتیجے میں بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویات سستی ہوجاتی ہے۔ اسلام توانائی کے شعبے کو عوامی ملکیت قرار دیتا ہے جس کے باعث پٹرول اور بجلی سستی ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت کم ہوجاتی ہے۔ کسان کو امدادی قیمت یاسب سڈی کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ اسلام زرعی زمین کو کرائے پر دینے یا پیداوار کے کسی مخصوص حصے کے عوض دینے کی بھی ممانعت کرتا ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جو اس شعبے میں بھی اپنے منفرد قوانین سے کسانوں کے لیے خوشحالی کے جہان تخلیق کرتا ہے۔