بلاول زرداری کا ’’اپنا‘‘ بیانیہ

210

پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول زرداری نے آخرکار میاں نوازشریف کے بیانیے کا بوجھ اُٹھانے سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔ بلاول زرداری نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے ذریعے خود کو بہت نرم انداز میں نوازشریف کے بیانیہ سے الگ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد کے راہنما اصول طے کرتے وقت یہ طے ہوا تھا کہ کسی فرد کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنایا جائے گا مگر نوازشریف نے نام لے کر آرمی اور آئی ایس آئی چیف کو ہدف تنقید بنانا شروع کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کو عہدوں سے استعفا دلانا پی ڈی ایم کا مقصد نہیں۔ انہوں نے کہا فوجی قیادت کا نام لینا نوازشریف کا ذاتی فیصلہ ہے۔ دوسری طر ف وزیر اعظم عمران خان نے سوات میں ایک جلسہ ٔ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اپنا پیسہ بچانے کے لیے فوج میں بغاوت کرانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فوج آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو تبدیل کرے۔ نوازشریف محمد زبیر کی ناکام ملاقاتوں کے بعد جس طرح ذاتی تلخ نوائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کا انجام کسی طور اچھا نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلاول زرداری جیسا نوجوان بھی کچھ دن اس بیانیہ کا خاموش ساتھ دینے کے بعد آخر کار اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ ان کی سیاست اس بیانیہ کا بوجھ مزید اُٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سو انہوں نے بہت محتاط انداز سے خود کو اس سیاست سے الگ کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب پی ڈی ایم کا اتحاد بکھر جائے گا۔ پی ڈی ایم نظریہ ضرورت کے تحت اپنی روایتی سرگرمیاں جاری رکھے گا مگر اس مہم کا نتیجہ کسی بامعنی تبدیلی کی صورت میں برآمد ہوگا اس کا امکان اب مزید کم ہوگیا ہے۔
پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کی سب سے اہم سیاسی جماعت کے طور پر خود کو نوازشریف کے موقف سے الگ کر دیا ہے۔ نوازشریف کے بیانیہ کا بوجھ اب صرف مولانا فضل الرحمن
اور اس بیانیہ کے اصل مصنف محمود اچکزئی ہی اُٹھا کر چلتے رہیں گے۔ اس وقت ملک میں جاری کشمکش کو جس طرح شخصی تصادم کا رنگ دیا جا رہا ہے یہ قطعی غلط ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ایک طرف نوازشریف اور دوسری طرف قمر جاوید باجوہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تاثر عمران خان کے دھرنے کے وقت راحیل شریف کے حوالے سے بھی دیا جا رہا تھا اور یہی تاثر ایک دور میں مشرف کے لیے بھی دیا گیا تھا بالخصوص کارگل جنگ کے بعد یہ ماحول بہت مہارت سے بنایا گیا تھا جب برطانوی اخبارات میں افواج پاکستان کے بارے میں ’’روگ آرمی‘‘ یعنی غنڈہ فوج کے اشتہار چھپوائے گئے تھے۔ مشرف کے بعد راحیل شریف اور اب قمر جاوید باجوہ کی تصویر اس فریم میں فٹ کرنا بتارہا ہے کہ معاملہ آج کا نہیں اور معاملہ شخصی بھی نہیں۔ شاید یہ مائنڈ سیٹ کا معاملہ ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک طرف پنجاب کے طاقتور لیڈر نوازشریف ہیں تو دوسری طرف پنجاب کو پاور بیس بنانے والی فوج کا کوئی بھی سربراہ ہے۔ طاقت کی کشمکش کے اس سفر میں ایک کردار مستقل ہے وہ ہیں نوازشریف اور باقی کردار اسلم بیگ، آصف نواز، وحید کاکڑ، جہانگیر کرامت، پرویز مشرف، راحیل شریف اور اب قمر باجوہ کی صورت بدلتے رہتے ہیں۔ ایک اس فوج سے جنرل ضیاء الدین بٹ برآمد کرنے کی کوشش کی گئی جو نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ملک پر ایک اور بلاواسطہ طویل فوجی حکمرانی کا باعث بھی بنی۔
پاکستانی فوج کی پہچان اور انفرادیت اس کا ڈسپلن ہے۔ پاکستان کا اساسی نظریہ اسلام تو ہے مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ ایک کثیر القومیتی معاشرہ ہے جسے ایک حقیقی ملک کے طور پر اُبھرنے اور تشکیل پانے میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ اس متنوع معاشرے کو توڑنے کی کوششیں اندرونی اور بیرونی سطح پر ہر دور میں جاری رہی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی صورت میں اس ملک کو ایک تقسیم کا شکار بھی کیا جا چکا ہے۔ مشرقی پاکستان سے کچھ سبق سیکھ کر ہم آگے نہ بڑھے ہوتے تو اب تک اس طرح کے کئی اور زخموں سے خون رس رہا ہوتا۔ متنوع ثقافت اور قومیتی معاشرے کو جوڑے رکھنے میں فوج کا اہم کردار ہے۔ بلاول نے خود کو اس بیانیہ سے الگ کرنے کا آغاز کرکے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے۔ قانون کا سامنا کرنے کے بجائے معاملات کو شخصی رنگ دینا حقائق کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ حقیقت میں یہ صرف ووٹ کو عزت دو کا معاملہ نہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس ملک میں بے تحاشا کرپشن اور منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ اس سماج کو منظم انداز میں کرپشن کا شکار کرنے اور دولت سے ہر ادارے، شخص کو خریدنے اور ہر رکاوٹ کو دور کرنے کارواج کچھ مخصوص سیاسی گھرانوں نے ڈالا ہے۔ ان کا وتیرہ یہ ہے کہ الزام لگانے والے پر اس سے بڑا الزام داغ دو۔ اپنے الزام کی صفائی دینے کے بجائے الزام لگانے والے کے دامن پر کیچڑ پھینک دو تاکہ کوئی فرق ہی باقی نہ رہے۔ پھر اس ملک میں ’’کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘ کے محاوروں کو فروغ دے کر اس معاشرے کی اخلاقیات کا جو جنازہ نکال دیا گیا ہے اس نقصان کی تلافی مدتوں نہیں ہو سکتی۔ اس نے معاشرے کے ضمیر کو موت کی نیند سلا دیا۔ گویا کہ عام آدمی کی نظر میں کھانا کوئی جرم ہی نہیں رہا اور کھا کر کچھ لگادینے سے سب گناہ معاف ہوگئے۔ یوں ایک مخصوص سیاسی خانوادے نے اپنے اسلوب سیاست کو معاشرے میں قبولیت عطا کرنے کے لیے ایک مخصوص سیاسی کلچر متعارف کرایا۔
کرپشن سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکتا ہے مگر اس اخلاقی زوال اور اقدار کی بربادی کا علاج ممکن نہیں۔ غلام مصطفی کھر کی گواہی یہی ہے کہ آصف زرداری نے جب سیاست میں یہ طوفان اُمڈتے دیکھا تو انہوں نے بے نظیر بھٹو کو قائل کیا کہ اس طوفان کا مقابلہ بھٹو کے نعروں سے ممکن نہیں۔ چی گویرا، خمینی، اردوان، نیلسن منڈیلا، محمد مرسی، قائد اعظم ثانی بننے کی تمنا کس دل میں نہیں ہوتی مگر اس راہ میں زندگی کو موم بتی کی مانند پگھلانا پڑتا ہے، جیلوں میں چکی کی مشقت جھیلنا پڑتی ہے۔ عدالت میں کھڑے کھڑے جان جانِ آفریں کے سپرد کرنا پڑتی ہے۔ روپے پیسے کی سیاست سے دور رہ کربوریا نشینی، فقر وفاقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ کہنے اور سوچنے کو ایسے کردار اچھے لگتے مگر مشکل یہ ہے کہ اس راہ میں مشکلات بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں جیلوں میں مچھر بھی بہت ہوتے ہیں۔