سعود ساحر (مرحوم) سے تعلقات کا دورانیہ کم و بیش نصف صدی پر محیط ہے۔ ہم 1975ء میں ہفت روزہ ایشیا لاہور کی ذمے داری سے سبکدوش ہو کر راولپنڈی میں ایک بڑے قومی اخبار کے ادارتی عملے میں شامل ہوئے تو سعود ساحر اگرچہ اس اخبار کو چھوڑ چکے تھے لیکن ان کا چرچا اب بھی وہاں موجود تھا۔ ہمیں لاہور میں بھی دوستوں نے کہا تھا کہ راولپنڈی جارہے ہو تو سعود ساحر اور ان کے بڑے بھائی حکیم سرو سہارن پوری سے ضرور ملنا وہ تمہارے بہت کام آئیں گے۔ چناں چہ ہم نے بھی راولپنڈی پہنچتے ہی پہلی فرصت میں دونوں بھائیوں سے ملنا ضروری سمجھا۔ سعود ساحر اُن دنوں ریلوے روڈ راولپنڈی صدر کی ایک بوسیدہ عمارت کی اوپری منزل میں اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ بطور کرایہ دار رہتے تھے۔ جب کہ حکیم صاحب کا مطب بھی اسی عمارت کی نچلی منزل میں تھا۔ دونوں بھائیوں سے مل کر دل کو بڑی راحت ہوئی۔ سعود ساحر نے خاص طور پر بڑی محبت اور یگانگت کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’اخبار میں کوئی تم سے بدمعاشی کرے تو بتانا میں ان لوگوں سے نمٹنا جانتا ہوں‘‘۔ خیر ایسی نوبت نہیں آئی۔ سب لوگوں کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا۔ یہ سعود ساحر کی تنگ دستی کا زمانہ تھا۔ اخبار سے نکلنے یا نکالے جانے کے بعد ملازمت بھی کوئی ڈھنگ کی نہیں تھی۔ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے بانی امیر مولانا عبدالباری ایک ہفت روزہ ’’بیباک‘‘ نکالتے تھے۔ اس کی ادارت سعود ساحر کے سپرد تھی لیکن اس کام میں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ مولانا عبدالباری کو ان سے بڑی شکایت تھی۔ انہوں نے ہم سے ’’بیباک‘‘ کی ادارت سنبھالنے کو کہا تو ہمارا جواب یہ تھا کہ جب تک سعود ساحر رضا کارانہ طور پر پرچے کی ادارت نہیں چھوڑتے ہمارے لیے اس کی ذمے داری سنبھالنا ممکن نہ ہوگا۔ کچھ دنوں بعد سعود صاحب خود ہی ’’بیباک‘‘ چھوڑ کر چلے گئے کیوں کہ انہیں ’’جسارت‘‘ اور ’’زندگی‘‘ سے پُرکشش پیش کش آگئی تھی اور ان کے قلم کی جولانیوں کو وسیع میدان مل گیا تھا۔ جسارت سے سبکدوش ہوئے تو امت نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ پھر قدرت نے ان پر عزت، شہرت اور فراخی کے در کھول دیے۔ انہوں نے بھٹو کی فسطائیت کے خلاف الطاف حسن قریشی اور مجیب الرحمن شامی کی قلمی جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور ان کے قلم سے بہت سی معرکہ آرا تحریریں وجود میں آئیں۔ انہوں نے نظریاتی محاذ پر بھی قلم کے بیباک سپاہی کی حیثیت سے اپنی تحریر کے جوہر دکھائے۔ وہ نظریاتی صحافت کا دور تھا اور اس دور میں سعود ساحر کا ڈنکا بج رہا تھا۔
سعود ساحر یوں تو سنگل پسلی کے آدمی تھے لیکن اُن میں طنطنہ کمال کا تھا۔ خوف نام کی کوئی چیز ان کے اندر موجود نہ تھی۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ وہ بے دھڑک لکھتے، بے دھڑک بولتے اور جسے سچ سمجھتے بے دھڑک کر گزرتے تھے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
نہ ان سے دوستی اچھی، نہ ان کی دشمنی اچھی
لیکن ہمارا ان کے ساتھ تعلقات کا دورانیہ خوشگوار رہا، کبھی کوئی تلخی پیدا نہ ہوئی۔ ہم نے ایک دفعہ انہیں بہت جلال میں دیکھا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سردار عبدالقیوم خان کی کتاب ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ شائع ہوئی تو سردار صاحب اُن دنوں آزاد کشمیر کے صدر اور سکندر حیات وزیراعظم تھے۔ کتاب کی تقریب
پزیرائی مظفر آباد میں ہونا طے پائی۔ اس کے لیے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کو دعوت نامے ارسال کیے گئے اور انہیں حکومت آزاد کشمیر کی میزبانی میں مظفرآباد بلایا گیا۔ ہمیں بھی کتاب کا ایک نسخہ اور دعوت نامہ موصول ہوا اور محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر کی طرف سے فرمائش کی گئی کہ ہم کتاب پر تحریری اظہار خیال فرمائیں۔ چناں چہ ہم نے کتاب کا تفصیلی مطالعہ کرکے ایک مضمون لکھ مارا جس میں تحسین کے ساتھ تنقید بھی شامل تھی کیوں کہ اُن دنوں مقبوضہ کشمیر میں جہاد برپا تھا اور سید علی گیلانی سیاسی میدان میں اس کی حمایت کررہے تھے۔ سردار عبدالقیوم خان نے کتاب میں جہاد اور سید گیلانی کی قیادت کو رگیدا تھا اس پر تنقید تو بنتی تھی۔ بہرکیف کتاب کی تقریب پزیرائی میں شرکت کے لیے ادیبوں اور صحافیوں کا ایک قافلہ راولپنڈی سے مظفر آباد کے لیے روانہ ہوا تو سعود ساحر میرِ قافلہ قرار پائے۔ اس قافلے میں ایک معروف شاعر منور ہاشمی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ان کی جو شامت آئی تو وہ سعود ساحر سے متّھا لگا بیٹھے اور ان کے ساتھ کسی بحث میں اُلجھ گئے۔ دوران بحث منور ہاشمی نے کوئی ایسی بات کہہ دی کہ سعود صاحب کا پارا چڑھ گیا۔ انہوں نے گاڑی رکوائی اور منور ہاشمی کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اُتار دیا اور کہا کہ تم ہمارے ساتھ مظفر آباد نہیں جاسکتے۔ بیچارا حیران پریشان کیا کرے۔ پھر سب لوگوں نے سعود ساحر سے درخواست کی کہ بیوقوف ہے اسے معاف کردیں۔ آخر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور اسے بیٹھنے کی اجازت دی۔ مظفر آباد پہنچے۔ ایک بڑے ہال میں کتاب کی تقریب پزیرائی منعقد ہوئی۔ اسٹیج پر سردار عبدالقیوم خان، سردار سکندر حیات اور دیگر زعمائے حکومت بیٹھے ہوئے تھے۔ مقررین کتاب اور صاحب کتاب کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ ہماری باری آئی تو ہم نے اپنا مضمون پڑھ دیا جس میں تحسین کے ساتھ کڑی تنقید بھی شامل تھی۔ لوگوں کا رنگ بدل گیا لیکن سردار عبدالقیوم خان کے چہرے پر ناگواری کا کوئی تاثر ظاہر نہ ہوا۔ بعد میں بھی وہ نہایت خندہ پیشانی سے ملے۔ البتہ سعود صاحب نے بعد میں ہمیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہنے لگے کہ یہ کتاب کی تقریب پزیرائی تھی کوئی تنقیدی نشست نہ تھی کہ آپ نے اتنی کڑی تنقید لکھ ماری۔ ہم نے فوراً اپنی غلطی تسیلم کرلی اور بات ختم ہوگئی۔
سعود صاحب کی زندہ دلی بھی کمال درجے کی تھی وہ اپنی باتوں پر خود بھی ہنستے اور دوسروں کو بھی ہنساتے تھے۔ اسمارٹ تو خیر وہ تھے ہی جوانی میں زیادہ اسمارٹ اور پُرکشش تھے۔ ایک دفعہ بتانے لگے کہ بھتیجے کا رشتہ دیکھنے لڑکی والے آئے ہوئے تھے میں بھی وہاں موجود تھا اور ان سے ہنس ہنس کر باتیں کررہا تھا، وہ میری باتوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ بھتیجے کے بجائے مجھے پسند کرکے چلے گئے اور بعد میں پیغام بھیجا کہ ہمیں سعود ساحر پسند آگیا ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ وہ تو شادی شدہ اور کئی بچوں کا باپ ہے تو حیران رہ گئے۔
سعود صاحب نے بڑے تہکے سے صحافت کی ہے۔ ایک زمانے میں راولپنڈی پریس کلب پر بھی ان کی اجارہ داری تھی، وہ تاش کے رسیا تھے اور زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ پریس کلب میں گزارتے تھے لیکن پھر تاش کو ایسے چھوڑا کہ اس کی طرف آنکھ اُٹھانے کے بھی روادار نہ ہوئے۔ انہوں نے بہت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ایک یادگار عہد کی کہانی ختم ہوگئی ہے۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے