ٹرمپ کی یادمیں

242

اس قدر کھینچا تانی، کسائو اور کشمکش! کم ہی کسی امریکی الیکشن میں دیکھی گئی ہوگی جیسا کہ حالیہ الیکشن میں۔ دونوں امیدواروں کی پوزیشن اس طرح بدل رہی تھیں کہ کہنا مشکل تھا کہ آئندہ امریکی صدرکون ہوگا۔ بہرحال جو بائیڈن امریکا کے 46ویں صدر منتخب ہوگئے۔ شاید ہی کسی کے گمان میں ہوکہ اس قدر گھمسان کا رن پڑے گا۔ ٹرمپ اتنے سخت امیدوار ثابت ہوں گے۔ اغلب یہی تھا کہ جو بائیڈن ٹرمپ کو با آسانی شکست دے دیں گے لیکن جاتے جاتے بھی ٹرمپ توقع کے برعکس ثابت ہوئے۔
شاعر نے کہا تھا:
لمحہ موجود میں ایک روٹی چاہیے
جنت فردوس کے سارے گھر تمہارے نام
پاکستان ہو یا امریکا عام آدمی کا مسئلہ یہی ہے، بھوک اور مہنگائی سے نجات۔ لوگوں کا اصل مسئلہ یہی بنادیا گیا ہے۔ پاکستان میں تو بات سمجھ میںآتی ہے۔ یہاں غربت ہے، افلاس ہے۔ حکومتیں بدعنوان ہیں۔ ملک کا بال بال ہی نہیں ریشہ ریشہ قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی سود خوروں نے ملک کی معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے۔ وہی معاشی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔ ان ہی کے احکام پر قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن امریکا!! جہاں عام آدمی کی آمدنی پاکستانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، وہاں بھی مسئلہ یہی ہے۔ وہاں بھی عام امریکی یہی چاہتا ہے کہ اس کی جیب میں آنے والے ڈالروں اور ان ڈالروں سے خریدی جانے والی اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں توازن رہے۔ اشیا کی قیمتیں اس کی آمدن سے زیادہ نہ ہوں۔ امریکا میں ہر چیز قسطوں پر دستیاب ہوتی ہے۔ شرح سود، مارگیج اور قیمتوں کا ایک حد میں رہنا یہی معیشت اور حکمران کی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ اسی حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے عام امریکی شہری کا خیال رکھا۔ معیشت کی بحالی پر دھیان دیا۔ کم پڑھے لکھے سفید فاموں کی مشکلات کا ادراک کیا۔ مینو فیکچرنگ کے شعبے پر توجہ دی۔ مہنگائی کو بڑھنے نہ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ تمام قیاس آرائیاں، اندازے، تجزیے اور پیش گوئیاں جن میں یہ کہا گیا تھا کہ بدمزاج، اکھڑ اور لاابالی صدر ٹرمپ آسانی سے ہار جائیں گے، مکمل طور پر غلط ثابت ہوئیں۔
سابق محتاط، سنجیدہ، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اور ایک ایک لفظ سوچ سوچ کر ادا کرنے والے امریکی صدور کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کی ایک بڑی خوبی یہ رہی کہ تمام شیطانی طور اطوار اور ہتھکنڈوں سے لیس ہونے کے باوجود انہوں نے امریکا کو کسی نئی جنگ میں نہیں جھونکا۔ وہ امریکی مداخلتوں اور دنیا میں جنگیں برپا کرنے کو احمقانہ اقدام سمجھتے تھے۔ افغانستان میں جس طرح طالبان طاقت حاصل کررہے ہیں، ایک بالادست قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوا رہے ہیں، افغان حکومت اور اس کے اداروں پر حملہ کررہے ہیں کوئی اور امریکی صدر اس صورتحال میں شاید ہی افغانستان سے فوجیں نکالنے کا سوچتا لیکن صدر ٹرمپ کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ شام سے بھی امریکی افواج کے انخلا کا فیصلہ کرنے میں وہ ایک لمحہ تذبذب کا شکار نہیں رہے۔ شمالی کوریا کے معاملے سے بھی وہ جس فنکارانہ چا بکدستی سے عہدہ برآہوئے ہیں وہ ان ہی کا حصہ تھا۔ چین سے تجارتی عدم توازن کے معاملے میں انہوں نے جس طرح سینگ پھنسائے اور اہل امریکا کو چین کے خطرے سے آگاہ کیا ایسا صرف صدر ٹرمپ ہی کرسکتے تھے۔ انہوں نے امریکیوں کو احساس دلایا کہ اب ان کے مقابل روس نہیں چین ہے۔
سابقہ امریکی صدور کی طرح صدر ٹرمپ کے پاس بھی عالم اسلام کے لیے کوئی خیر نہیں تھا۔ ان کی توجہ اور التفات کا مرکز اسرائیل تھا۔ یو اے ای تسلیم کرچکا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا امریکی ایما پر تھا۔ گزشتہ بیس برس سے کسی امریکی صدر نے بیت المقدس کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے میں بھی کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا۔ ان کی ہدایت پر امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے القدس منتقل کردیا گیا۔
پاکستان کے معاملے میں ان کا رویہ امریکی روایات کے عین مطابق تھا اگرچہ اپنی الیکشن مہم میں انہوں نے پاکستان کے خلاف انتہائی سخت اور جارحانہ زبان استعمال کی تھی۔ وہ ایک پاکستان مخالف امریکی صدر کے روپ میں سامنے آئے تھے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اعتدال کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عملی طور پر پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی لیکن رویہ دوستانہ رکھا۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستانی وزرائے اعظم کھلونوں سے بہل جاتے ہیں، یہ حکمران دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور دو میٹھے بولوں کی مار ہیں۔ لہٰذا وزیراعظم نواز شریف سے لے کر وزیراعظم عمران خان سب کو انہوں نے بڑی مہارت سے باتوں کے استرے سے مونڈا اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ صدر ٹرمپ ہی تھے جن کی آشیرباد سے نریندر مودی نے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا اور کشمیر کو اہل کشمیر کے لیے ایک بہت بڑی جیل بنا کر رکھ دیا۔ وہ بار بار کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کرتے رہے جس کا دنیا کو پتا ہے کہ بھارت کبھی مثبت جواب نہیں دے گا۔ وہ مودی کا مذاق بھی اڑاتے تھے، کورونا کی دوا فروخت نہ کرنے پر دھمکی بھی دیتے تھے لیکن عملی طور پر فائدہ بہرحال بھارت ہی کو پہنچاتے تھے۔
صدر ٹرمپ کو جس بڑے شیطان نے شکست دی وہ کورونا ہے۔ کورونا کے معاملے کو انہوں نے نہ صرف غیر سنجیدگی سے لیا بلکہ اس وبا سے نمٹنے میں جس طرح ناکام رہے وہ کسی بھی طرح ایک سپر پاور کے شایاں نہیں تھا۔ کوویڈ19رونما نہ ہوتا تو ممکن تھا امریکی انتخاب کے نتائج مختلف ہوتے۔ حالیہ الیکشن میں صدر ٹرمپ نے جمہوریت کی پرتوں کو جس طرح بے نقاب کیا ہے وہ اس نظام کی حقیقت سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ امریکا اور دنیا بھر میں انتخابی کامیابی جس طرح سرمایے سے مشروط ہے وہ ایک ایسا پامال موضوع ہے جسے بہ جبر واکراہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ دنیا نے جس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں لیکن ڈیپ اسٹیٹ! امریکا کے بارے میں ایسا کم ہی باور کیا جاتا تھا۔ آج دنیا پر واضح ہوچکا ہے کہ جمہوریت امریکا سمیت کہیں بھی عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ دار طبقے اور طاقتور ریاستی اداروں کا کھیل ہے۔ امریکا میں بھی ریاست کے اوپر ریاست موجود ہے۔ وہی بادشاہ گر ہے۔ امریکا میں بھی فرشتے ہی حتمی نتیجے کا تعین کرتے ہیں۔ صدر وزیراعظم، پارلیمنٹ، اسمبلیاں یہ سب اس نظام کے دھوکے اور ربر اسٹمپ ہیں۔ حکومت نیشنل سیکورٹی کے ادارے، ایجنسیاں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی وہ خلائی مخلوق چلاتی ہے جو دکھائی نہیں دیتی لیکن عمل اسی کے فیصلوں پر کیا جاتا ہے۔ صدر، وزیراعظم، اراکین کابینہ یا وزیر وزراء سب اسی سرکار کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ امریکا الیکشن کی جس شفافیت کی علامت تھا اب وہ بھی ماضی کا قصہ ہے۔ ٹرمپ نے اس کا پردہ بھی چاک کردیا ہے۔ الیکشن میں دھاندلی اور بدعنوانی کو پاکستان جیسے ممالک سے منسوب کرتے ہوئے کہا جاتا تھا ’’ترا ذوق طلب شاید ابھی تک خام ہے ساقی‘‘ لیکن اب ہر امریکی الیکشن میں پاکستانی الیکشن جیسا مزہ آئے گا۔ ویسے اس امریکی الیکشن اور گزشتہ پاکستانی الیکشن میں کوئی خاص فرق نہیں تھا۔ امریکا میں گدھے کے نشان والا اب جیتا ہے پاکستانی اس سے پہلے گدھے منتخب کرچکے ہیں۔ حالیہ امریکی الیکشن میں پاکستانیوں کی دلچسپی اور فکر مندی بھی ہمارے لیے حیرت کا باعث تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے رشتہ چودھری کا طے ہورہا ہے لیکن فکر میراثی کو لگی ہو۔