امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے تجزیے کے مطابق جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ملک کا بیڑا غرق ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت نے تعلیم، زراعت اور بزنس سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔ بیرونی دنیا پریشان ہے کہ کس سے بات کریں۔ ایوانِ صدر جائیں، وزیر اعظم ہائوس جائیں یا راولپنڈی والوں سے بات کریں۔ حکومت دن میں کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ رات کو ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے۔ انہوں نے آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے لیے شرم کی بات ہے کہ اساتذہ بھی سڑکوں پر ہیں۔ جو حکومت چند ہزار اساتذہ کے مسائل حل نہیں کر سکتی وہ 22کروڑ عوام کے مسائل کیسے حل کر سکتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اساتذہ کے مسائل فوری طور پر حل کیے جائیں۔ بے روزگار پی ایچ ڈی اسکالرز کو ملازمت نہ ملنے تک وظیفہ دیاجائے۔ اساتذہ کے دھرنے میں صدر پاکستان اور وزیراعظم کو آنا چاہیے تھا کہ یہ قابل تحسین عمل ہوتا۔ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبہ اور طالبات کے ہاسٹلز میں اضافہ کیا جائے تاکہ طالبات اور طالب علم رہائش کے لیے گلی کوچوں میں دھکے نہ کھائیں۔ بہت سے والدین محض اس لیے اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی میں دخل کرانے سے گریزاں ہیں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گلی کوچوں میں دھکے کھاتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ مگر حکومت کو ان باتوں پر غور وغوض کرنے کی فرصت ہی نہیں۔ وہ تو چور چور کا شور مچا رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی اولین ذمے داری یہ ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی سے لڑیں۔ حکومتی وزیر اور مشیر بھارتی چینل دیکھنے کے بجائے قومی چینل دیکھیں تو انہیں علم ہو گا کہ عوام بے روزگاری کی سونامی میں ڈوب رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ مہنگائی غوتے پے غوتے دے رہی ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں کیوں ہے۔ اور اس کا سدبا ب کیسے ہو گا۔ حکومت عوام کے مال و جان کے تحفظ میں شرمناک حد تک ناکام ہو چکی ہے۔ حکومت کو متعلقہ اداروں نے تین دن پہلے ہی دہشت گردی کے خدشے سے آگاہ کردیا تھا۔ مگر حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ مدرسے کے بچوں کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے اور مساجد کو سیکورٹی فراہم نہ کرنا ریاست مدینہ کی دعوے دار حکومت کی بے بسی اور غیر سنجیدگی کی انتہا ہے۔
وطن عزیز کے سیاست دانوں کی فطرت ہے کہ وہ جب بھی بولیں گے عوام کی دل آزاری ہی کریں گے مگر کبھی کبھی کوئی سیاست دان ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے مریم نواز کو سالگرہ کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ مریم نواز کو اب بڑا ہوجانا چاہیے۔ غالباً کوئی سعد لمحہ تھا جس کے تحت موصوف نے خوش کن بات کہی تھی۔ مگر دوسری سانس میں وہ اپنی اصل جون میں آگئے۔ فرمانے لگے اپوزیشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں وہ ان کا سامنا کریں۔ وزیر اعظم اس بارے میں کوئی مکالمہ کرنا نہیں چاہتے۔
خدا جانے تحریک انصاف کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ جمہوریت اور بدعنوانی لازم و ملزوم ہے اور وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہیںکہ جہاں جمہوریت ہوگی وہاں پر بدعنوانی بھی ہوگی۔ جمہوریت کی کیمسٹری ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ بدعنوانی کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ اور اس حقیقت کی گواہ وطن عزیز کے سیاسی رویے ہیں۔ اور اب تو امریکا بھی اس گواہی میں شامل ہو چکا ہے۔ چودھری فواد کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم کرپشن کے سوا ہر موضوع پر مذاکرات کرنے پر تیار ہیں اسے ہٹ دھرمی کہنا تو بد تمیزی ہو گا۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں نہ مانوں کی پالیسی ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ مکالمہ کبوتروں سے بھرے آسمان کی طرح ہوتا ہے۔ کبوتروں کو اُڑا دیا جائے تو خلا کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ اور مکالمے کے منکر خلا میں معلق ہوجاتے ہیں۔ خلا میں لٹکا ہوا کوئی بھی شخص مکالمہ نہیں کر سکتا۔
یہ کیسی بے حسی اور ڈھٹائی ہے کہ ابھی تک مدرسے میں پولیس یا سیکورٹی اداروں کے اہلکار تعینات نہیں کیے گئے ہیں۔ اے پی ایس واقعہ میں قومی قیادت نے اپنے اختلافات بھلا کر ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا۔ جس کے نتیجے میں ملک میں امن آیا تھا مگر اب اس پلان پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔
سراج الحق نے سینیٹ کے اجلاس میں تجویز پیش کی ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین رولنگ دیں کہ سینیٹروں پر مشتمل ایک وفد بھیجا جائے جو قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے مقدمے کا جائزہ لے کر ان کی رہائی کی جدوجہد کرے۔
چودھری فواد کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اس غلط فہمی کو دل سے نکال دے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نئے سال کا سورج نہیں دیکھ پائے گی۔ وہ اطمینان رکھیں نہ کوئی جا رہا ہے نہ کوئی آرہا ہے۔ مگر دوسری ہی سانس میں کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف 15جنوری 2021 کو پاکستان آجائیں گے۔ اور اپوزیشن یہ بھی یاد رکھے کہ حکومت کہیں نہیں جارہی ہے۔ ہم سب اپنی اپنی تنخواہ پر کام کرتے رہیں گے۔ تو کیا… یہ سمجھ لیا جائے کہ تحریک انصاف نے پانچ سال کے لیے حکومت ٹھیکے پر لی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے خوفزدہ کیوں دکھائی دے رہے ہیں اور اپوزیشن کو بھی خوفزدہ کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی بھی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ جو سیاست میں اکھاڑ پچھاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔ چودھری فواد نے مریم نواز کو بڑا ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ ان کا مشورہ تو بڑا نیک ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی فطرت میں ایسی کجی ہے یا شاید ان کی کیمسٹری کوئی نقص ہے وہ بڑھتے تو ہیں مگر بڑے نہیں ہوتے۔