آذر بائیجان۔ آرمینیا معاہدہ

242

نگورنوکاراباخ کے تنازعے پر طویل جنگ کے بعد آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا ہے۔ آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف، آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پاشنیان اور روسی صدر پیوٹن نے امن معاہدے کا اعلان کیا۔ معاہدے کے مطابق لڑائی کے دوران میں قبضے میں لیے گئے علاقے آذر بائیجان کے کنٹرول میں رہیں گے جبکہ آرمینیا نے نگورنو کاراباخ کے بعض علاقوں سے انخلا کے نظام الاوقات پر اتفاق کرلیا ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان دونوں ریاستیں سابقہ سوویت یونین کا حصہ تھیں جو کمیونزم کے انہدام کے نتیجے میں آزاد ہوئیں۔ آرمینیا مسیحی اکثریت کا ملک ہے جبکہ آذربائیجان ترک نسل سے تعلق رکھنے و مسلم اکثریتی ملک ہے دونوں ممالک کے درمیان نگورنو کاراباخ کا تنازع کشیدگی کا سبب تھا جہاں آرمینیائی عیسائیوں کی اکثریت تھی۔ آرمینیا کی شہ پر نگورنو کاراباخ کی علٰیحدگی کی تحریک جاری تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے روسی صدر پیوٹن کے بارے میں گمان کیا گیا تھا کہ وہ آرمینیا کی حمایت کریں گے جس کی وجہ سے اس خطے کی دو ریاستوں کے درمیان تصادم کے اثرات پورے علاقے پر پڑیں گے۔ صدر پیوٹن نے تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ معاہدے کے مطابق نگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس معاہدے کو آذربائیجان کی فتح اور آرمینیا کی شکست سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے آذربائیجان میں فتح کا جشن منایا جارہا ہے جبکہ آرمینیا میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔ ہزاروں افراد امن معاہدے کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ آرمینیائی وزیراعظم نیکول پاشینان کو غدار قرار دیا جارہا ہے۔ مشتعل مظاہرین نے پارلیمنٹ کے صدر پر تشدد بھی کیا ہے۔ آرمینیا کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ کارا باخ سے متعلق معاہدہ ہمارے لیے تکلف دہ ہے۔ جنگ بندی کا فیصلہ زمینی حقائق کا بغور جائزہ لینے کے بعد کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شکست تب تک نہیں ہوتی جب تک شکست تسلیم نہیں کی جائے۔ آذربائیجان کو برتری اس لیے حاصل ہوئی کہ جنگ میں فتح حاصل ہوئی۔ نگورنو کاراباخ کی زمین پر اس کا دعویٰ برحق تھا اور اس خطے میں جنگ کی آگ کو بجھانے کے لیے روسی صدر پیوٹن نے ترجیح دی۔ آذربائیجان میں ہونے والے جشن فتح میں ترکی اور پاکستان کے پرچم بھی نظر آئے۔ آذری مسلمانوں کو احساس ہے کہ اس نازک وقت میں پاکستان اور ترکی نے ان کا ساتھ دیا ہے جس کی قدر کی جانی چاہیے۔