انفارمیشن کمیشن اور پرائیویسی

190

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے غالباً پہلا بڑا فیصلہ دیا ہے کہ چیئرمین نیب کے اثاثوں کی تفصیلات نہیں دی جاسکتیں۔ ڈپٹی چیئرمین نیب ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ڈائریکٹر و دیگر افسران اور ان کے اہلخانہ کے اثاثے عام کرنے سے ان کی پرائیویسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ مفاد عامہ میں نہیں البتہ کمیشن کے سربراہ زاہد عبداللہ نے قومی احتساب بیورو کو ہدایت کی ہے کہ اپنے افسران کے خلاف تمام تحقیقاتی رپورٹیں 28 نومبر تک عام کردیں۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن نے خوب بات کہی ہے معاملہ پروں کے جلنے کا ہے یا ملک میں دو قسم کے قوانین کا۔ ایک طرف عدالت عظمیٰ کے معزز جج جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کے اثاثوں پر دھما چوکڑی مچا دی گئی۔ صدر مملکت نے ریفرنس پر دستخط کردیے۔ جسٹس فائز کی اہلیہ کے اثاثوں اور بیرون ملک جائدادوں پر نیب، میڈیا اور ایف بی آر والے شور مچاتے رہے۔ اس سے جسٹس فائز عیسیٰ کی فیملی کی پرائیویسی متاثر نہیں ہوئی۔ یہ مفاد عامہ تھا کہ جسٹس کے گھر والوں کو نشانہ بنایا جائے۔ انفارمیشن کمیشن کے قیام کے وقت بھی یہ بات کہی گئی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ کسی کے لیے اجازت اور کسی کے لیے ممانعت ہوجائے۔ اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ جناب زاہد عبداللہ کو یاد ہوگا کہ انہیں سی پی این ای کے دورے کے موقع پر توجہ دلائی گئی تھی کہ عوام کا اصل مسئلہ معلومات تک رسائی ہے۔ انہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ کے الیکٹرک کس قیمت پر فروخت کی گئی ہے اور قیمت کون ادا کرے گا۔ سی پیک معاہدہ کیا ہے کون کون سی شقوں سے نقصان ہوسکتا ہے۔کسی کو پتا نہیں۔ ججوں کے اثاثے اور ان کے خاندان کے اثاثوں پر عدالت نے خود فیصلہ دے دیا کہ جسٹس فائز کی اہلیہ کے بارے میں ایف بی آر خود معلومات کرے اور ضرورت پڑے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ لیکن جو لوگ ساری دنیا کی پگڑیاں اچھالتے پھر رہے ہیں ان کو تو سب سے پہلے شفاف ہونا چاہیے تھا۔ ان کی پرائیویسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس ادارے کے سربراہ کی جو ویڈیو اور جو ٹیلی فونک کی آڈیو سامنے آچکی اور اس پر کوئی کلیئرنس کسی عدالت سے نہیں ہوئی ہے وہ سب کی پرائیویسی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ لہٰذا انفارمیشن کمیشن کی یہ دلیل بالکل ناکافی اور غلط ہے۔
اگر نیب کے حکم پر کسی کے گھر چھاپا مارا جائے اور اس کو پورے محلے کے سامنے گرفتار کرکے لے جایا جائے اور بعد میں وہ اطلاع اور مقدمہ غلط ثابت ہو تو اسے کیا کہا جائے گا، کیا اس سے اس کی پرائیویسی متاثر نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے کراچی میں ایک تقریب کے دوران ایک اور دعویٰ یا انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ ملک کا واحد متحد ادارہ ہے۔ لکھتا جج ہے لیکن فیصلہ عدالت کا ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ چند ججوں نے دلیرانہ فیصلہ لکھا اور چند نے ڈر کر لکھا، یہ غلط ہے، ایسی باتیں توہین عدالت ہیں۔ اب تک قوم کو بتایا جاتا تھا کہ فوج واحد ادارہ ہے جو متحد اور منظم ہے۔ ہمیں دونوں کی بات پر یقین ہے اور یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جہاں تک نتائج کا جائزہ لینے کا تعلق ہے تو کم از کم ہمارے جیسا کمزور آدمی ان دونوں اداروں کا جائزہ لینے کا رسک نہیں لے سکتا۔ یہ رسک لینے میں یہ رسک ہے کہ ہمیں بھی سیکورٹی رسک قرار دے دیا جائے۔ لہٰذا ایسا رسک نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔ چیف جسٹس نے عدلیہ کو واحد متحد ادارہ بھی کہا اور اس کے بارے میں ریمارکس پر بھی سخت تنبیہہ کی ہے، لیکن انفارمیشن کمیشن اس بارے میں کیا کہے گا کہ اگر محتسب ہی متنازع ہو تو وہ کیسے کسی کا احتساب کرسکے گا اسے تو غیر متنازع ہونا چاہیے لیکن انفارمیشن کمیشن کہتا ہے کہ ہر کسی کی پرائیویسی میں مداخلت کرنے والوں کے اثاثے کی تفصیل معلوم کرنا پرائیویسی میں مداخلت ہے۔ انفارمیشن کمیشن کو صرف نیب کے افسران کی پرائیویسی کی فکر ہے۔ پورے ملک کے لوگوں کی پرائیویسی خطرے میں ڈال کر اس کے افسران اور چیئرمین کو کیوں بچایا جارہا ہے۔ اگر شرعی اعتبار سے دیکھا جائے تو جو جتنا ذمے دار ہے اور جتنے اعلیٰ منصب پر ہو اس کو اتنا ہی زیادہ شفاف ہونا چاہیے لیکن انفارمیشن کمیشن نے نیب چیئرمین کی پرائیویسی متاثر ہونے کی بات کرکے ملک میں دو قوانین کا اعتراف کرلیا ہے۔ معاشرے کی تباہی کے لیے یہی کافی ہے کہ بڑوں اور اعلیٰ لوگوں کے لیے الگ قانون اور چھوٹے لوگوں کے لیے الگ قانون ہے۔ یہ رویہ ترک کرنا ہوگا، ورنہ پاکستانی معاشرے میں بچی کھچی زندگی بھی ختم ہوجائے گی۔ ہم ایک اسلامی ملک کہلاتے ہیں۔ وزیراعظم مدینہ جیسی ریاست کی بات کرتے ہیں وہاں تو خلیفہ وقت سے سوال کیا جاسکتا تھا کہ لمبا کرتا کہاں سے آیا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سوال کرنے والوں کا معیار بھی وہی تھا جو خلیفہ وقت کا تھا۔ اس لیے وہ ایسے سوال پوچھ سکتے تھے لیکن زوال تو دونوں طرف آیا ہے جیسے ہمارے اعمال ویسے ہی عمال۔ تو ان سے سوال پوچھنے کا حق تو ساقط نہیں ہوسکتا۔ جیسے حکمران ویسے ہی عوام ہیں۔ نیب اور دیگر ادارے جب چاہیں کسی کے گھر اور دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں، عام آدمی کی آواز تک نہیں سنی جاتی اور اگر معاملہ آئی جی کا ہو تو اعلیٰ ترین سطح تک بات جاتی ہے۔ چند افسران کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور جو روزانہ ملک بھر میں لوگ اٹھا لیے جاتے ہیں اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ سارے آئی جی نہیں ہوتے۔ پرائیویسی نیب چیئرمین اور آئی جی کی ہوئی ہے غریب کی کوئی پرائیویسی نہیں۔